جمیلہ (اماں) شاد کر کے اس گاؤں میں آئی تھی اور تب سے اب تک وقت کی ہر سختی اور نرمی کو خود پر سہتی آج وہ بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑی تھی . اس گاؤں سے انسیت اور پیار اپنی جگہ تھا . لیکن گاؤں کے لوگوں کے ساتھ بنا محبت اور خلوص کا رشتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط ہوا تھا .
اماں کی ساری زندگی سخت محنت اور مشقت کی چکی میں پستی ہوئی گزری تھی . شادی کے وقت جہاں اس کے گالوں سے قدرتی لالی اور ہونٹوں سے بات بے بات ہنسی پھوٹتی تھی . گزرتے وقت کے ساتھ سب وقت کی دھول میں دبتا چلا گیا . شوہر سیماب صفت اور ہرجائی نکلا . چار سال کے اختر کو جمیلہ کے سپرد کر کے نئی دنیا بسا لی اور دوسری شادی کرنے کے بعد کبھی پیچھے مڑ کر واپس نہیں دیکھا تھا . جمیلہ کی عمر ساس کی چاکری کرتے اور طعنے سنتے گزرنے لگی تھی . جمیلہ کی ساس کو اپنی بہو ہی غلط لگتی تھی . جس کی کمیوں اور خامیوں کی وجہ سے تنگ آ کر اس کے بیٹے نے دوسری شادی کر لی تھی اور اپنی ماں کو بھی بھول بیٹھا تھا . جب تک وہ زندہ رہی جمیلہ کا جینا حرام کیے رکھا . جمیلہ بھی خاموشی سے سر جھکاۓ اس الزام کو سنتی اور برداشت کرتی رہی . اختر اماں کا لاڈلا ضرور تھا ، مگر جہاں جمیلہ اپنے غصے اور جلال میں آ جاتی وہاں اختر بھی دبک کر رہ جاتا تھا .
اختر کی شادی اماں کی پسند سے ہوئی تھی . اختر شہر کی فیکٹری میں ملازم تھا . تنخواہ اتنی نہیں تھی کہ الگ سے کراۓ پر گھر لے کر اماں یا بیوی کو اپنے ساتھ رکھتا . اسی لئے بانو اماں کے ساتھ گاؤں میں ہی رہتی تھی اور اختر کے آنے کے دن گنتی تھی . اختر بھی ہر ہفتے بھاگا چلا آتا .اماں دونوں کی بے قراری دیکھ کر کبھی تو ہنس کر اور کبھی منہ بنا کر رہ جاتی . بانو جس کی ہر ممکن کوشش ہوتی تھی کہ اختر کے آگے پیچھے رہے ، ایسے میں اسے بات بے بات ٹوکتی اماں اسے بہت بری لگتی تھی . اسے ان کا وجود بری طرح کھٹکتا تھا . دراصل دونوں ہی ساس اور بہو کے روایتی رشتوں کو بخوبی نبھا رہی تھیں .
بانو ، اختر کے التفات ، محبت اور شدتوں پہ اترائی پھرتی تھی اور اماں کے منہ کے بنتے بگڑتے زاویے اسے بہت تسکین دیتے تھے . اس کے لئے یہ ہار جیت کا کھیل بن چکا تھا . مگر وہ یہ نہیں سمجھتی تھی کہ شہر کی ماں سے ہار جیت کا نہیں بلکہ عزت و احترام کا رشتہ بنتا تھا . ان رشتوں میں جیت تو کسی کی نہیں ہوتی ہاں مگر ہار دونوں کے حصے میں ضرور آتی ہے .
********************************