SIZE
3 / 9

" وے جھلیا، اس شوخی کو شہر لے جا کر اتنا خرچہ کرنے کی کیا ضرورت ہے . خود تو ... اپنے یار دوستوں کے ساتھ رہتا ہے . اس باند ری کو کہاں رکھے گا دو دن ."

اماں کے " باندری" کہنے پر بانو سلگ کر رہ گئی تھی .مگر اختر کے سامنے اماں کو جواب دے کر وہ کوئی تماشا نہیں لگانا چاہتی تھی . . اس لئے وہ منہ بنا کر رہ گئی تھی . جبکہ اماں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح ہنستی مسکراتی ، سجی سنوری بانو کو روک لیں . ہر ساس کی طرح ، اماں کو بھی بہو گندے حلیے میں گدھوں کی طرح دن رات کام کرتی ہی اچھی لگتی تھی .

اب سرخ جوڑے میں چمکتی دمکتی ، شرماتی بہو ، اماں کے اندر کی ساس کو کانٹے کی طرح چبھ رہی تھی اور ایسے کانٹے نکالنے کی کوشش ہر ساس بخوشی کرتی ہے . اماں بھی یہی کوشش کر رہی تھی .

" اوہو اماں! آپ کو تو وکیل ہونا چاہیے تھا . ہر بات پر جرح ، ہر بات پہ تنقید .... اتنا بیوقوف نہیں ہوں ، سب سوچا ہوا ہے . دو دن ہم خالہ رقیہ کے گھر ٹھہریں گے اور تو کھڑی کیا دیکھ رہی ہے . جلدی سے چادر اوڑھ کر آ ..... یہ نہ سمجھ کہ شہر لے کر جا رہا ہوں تو شہر والوں کی طرح اپنی عورت کو کھلے منہ اور ننگے سر لئے پھروں گا ."

اختر نے اماں کا غصہ بانو پہ اتارتے ہوئے تیکھے لہجے میں کہا تھا تو وہ گھبرائی ہوئی " جی اچھا " کہتی تیزی سے اندر کی طرف بھاگی تھی . بیٹے کے سخت لہجے سے اماں کے دیک کو کافی تسکین ملی . جلدی سے پاس آ کر بولی .

" اچھا کیا ہے ابھی سے اس کی اوقات سمجھا دی ہے . ایسا کرتی ہوں ، میں بھی تم لوگوں کے ساتھ چلتی ہوں . بہن رقیہ سے ملے مجھے بھی کافی ٹیم ہو گیا ہے . بڑی یاد آتی ہے نمانی ."

اماں نے چالاکی سے کہتے ہوئے آخر میں لہجے میں مصنوعی دکھ سمو لیا تھا . رقیہ اماں کی خالہ زاد بہن تھی ، جس سے اماں کی کبھی بھی نہیں بنی تھی .

" اماں! آپ بھی حد کرتی ہیں . پیچھے گھر کی رکھوالی ، جانوروں کی دیکھ بھال کون کرے گا ؟ اور ویسے بھی خالہ رقیہ سے کبھی آپ کی بنی ہی نہیں ہے . میرے ویاہ پہ بھی خوب تماشے لگائے تھے آپ دونوں نے . آج تک میرے یار ہنستے ہیں مجھ پہ . اچھا اب ہم چلتے ہیں . رب راکھا ." اختر نے بانو کو آتے دیکھ کر جلدی سے اماں سے رخصت چاہی تھی کہ کہیں وہ کوئی اور بات لے کر نہ بیٹھ جاۓ .

اماں نے برے برے منہ بناتے ہوئے دونوں کو جاتے ہوئے دیکھا اور بے دلی سے چارہ اٹھائے جانوروں کے باڑے میں چلی گئی .

" ہک ہاہ ! ساری حیاتی اس کے پیو سے چھتر کھائے ہیں اور اب پتر بھی زن مرید نکلا . ہاے وے سوہنیا ربا میرے نصیب !"

اماں نے بھورے رنگ کی بھینس کو چارہ ڈالتے ہوئے خود کلامی کی تھی . جلدی سے باقی کام نپٹائے اور چادر اوڑھ کر گھر سے نکل گئی . دوپہر کے وقت مائی جیراں کے تندور پہ سب عورتیں روٹی لگانے کے بہانے اکٹھی ہوتی تھیں اور سوٹی لگانے کے ساتھ ساتھ ساری اندر ، باہر کی اہم خبریں یہاں ہی ایک سے دوسرے تک پہنچائی جاتی تھیں . مائی جیراں اس گاؤں کی " وکی لیکس " تھی . ساری اہم اور اندر کی خبروں کو دبائے ، عین وقت پر بھانڈا پھوڑنے میں ماہر .اور میسنی ، گھنی، جادوگرنی بہو کے نئے وار کے بارے میں سب کو بتانا بھی تو ضروری تھا نا.... یہ سوچ کر اماں کے قدموں میں مزید تیزی آ گئی تھی .