تو جو چھو لے پیار سے
آرام سے مر جاؤں
آ جا چندا ' بانہوں میں
تجھ میں ہی گم ہو جاؤں میں
تیرے نام پہ کھو جاؤں میں
سیاں....
"شرم ہی مک گئی ہے آج کل کی لڑکیوں میں ."
اماں نے گانے کے آخری بولوں پہ استغفار پڑھتے ہوئے حسب عادت بہو کو کوسا تھا . جو ہے چیز سے بے پرواہ اپنی محبت کے سنگ ہوا میں اڑ رہی تھی .
********************************
" اماں ! میں بانو کو اپنے ساتھ لے کر جا رہا ہوں ."
اختر نے آستین کے بٹن بند کرتے ہوئے مصروف سے انداز میں صحن آ کر کہا تھا . اماں جو چارہ اٹھائے جانوروں کے باڑے کی طرف جا رہی تھی . ایک دم سے ہی ٹھٹک کر رہ گئی .
" اچھا .... اسی لئے صبح سے کمرے سے کمرے میں گھسی ہوئی ہے میسنی ."
اماں نے تصور میں بانو کو سامان باندھتے ہوئے دیکھا تھا . اماں کے ہاتھوں سے چارہ چھوٹا اور قدموں کے پاس ڈھیر ہو گیا اور اماں بھی وہاں ہی بیٹھ کر سر پہ ہاتھ رکھ کر اونچی آواز میں رونے لگی .
" ہائے وے لوکو ' ویکھو کیسے میرے کوں اک معصوم پتر چھین لیا . اس گھنی، میسنی ، جادوگرنی نے . کالی ناگن جیسی زلفوں کا جادو ہی کم نہیں تھا . اوپر سے میٹھی آواز میں گانے سنا سنا کر مت مار دی ہے میرے پتر کی جو اس بڑھاپے میں بوڑھی ماں کو اکیلا چھوڑ کر ' بیوی کو لے کر ہمیشہ کے لئے شہر جا رہا ہے ."
" اف اماں! کیا رولا ڈال رہی ہو . میں بانو کو شہر دکھانے لے جا رہا ہوں .دو دن لئے ، ہمیشہ کے لئے نہیں جا رہی وہ . اب بس بھی کرو یہ رونا دھونا . کیا سارا پنڈ اکٹھا کرو گی ."
اختر نے جھنجھلاتے ہوئے کہا تھا . وہ غصے کا تیز تو تھا ہی دوسرا اماں کے لاڈ پیار نے اسے ضدی اور خود سر بنا دیا تھا . فطرتا جلد باز ، اپنی کہنے اور اپنی کرنے والا . اس لئے ابھی بھی اماں سے اجازت لینے کی بجاۓ مطلع کرنا ہی کافی سمجھا تھا . اماں بھی اس سے دبتی تھی . ابھی بھی اختر کی تیوری چڑھی دیکھ کر اور دو دن کا سن کر دل کو کچھ تسلی ملی تو اماں ایک دم سے چپ کر گئی . پھر لہجے میں نرمی سمو کر بولی .
" میں تو تیرے بھلے کے لئے کہہ رہی تھی . شہر کی ہوا لگتے ہی اچھی بحالی زنانیوں کے دماغ خراب ہو جاتے ہیں اور تیری زنانی تو ویسے بھی ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتی شہر جا کر تو ویسے دماغ آسمان پر چڑھ جاۓ گا . "
اماں نے ہاتھ سے بکھرا ہوا چارہ سمیٹتے ہوئے کن اکھیوں سے سفید کلف لگے سوٹ میں تیار کھرے اختر کو دیکھا تھا . جو واپس پلٹتے ہوئے ایک دم رکا تھا .
" اماں! فکر مت کر ، مجھے آتا ہے اپنی زنانی کو . ابھی تو جانے دے پہلے ہی دیر ہو رہی ہے ."
اختر نے جلدی سے کہا اور بانو کو آواز دی .
" آئی جی ...." اندر سے جھٹ پٹ سرخ جوڑے میں تیار ، بنی سنوری ، ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ اور کاجل بھری آنکھوں میں چمک لئے ، پرندے کو جھلاتی ، بانو کو آتا دیکھ کر اماں کا منہ ایسے بن گیا جیسے دانتوں تلے کڑوا بادام آ گیا ہو .