SIZE
5 / 9

شہر کی عورتوں کے ننگے اور کھلے منہ پہ تنقید کرنے والا اختر ، خالہ رقیہ کی ادائیں دکھاتی ، قہقہے لگاتی بیٹیوں کے ساتھ ہنسی مزاق کرتے ہوئے چادر میں سکڑی سمتی بیوی کو بھولے بیٹھا ہوا تھا . اندرون لاہور کی تنگ و تاریک گلیوں میں واقع اس دو منزلہ مکان میں خالہ رقیہ اپنی آل اولاد کے ساتھ رہائش پذیر تھیں . تینوں بائٹ شادی شدہ اور بال بچوں والے تھے . بڑی بیٹی نیلو فر شادی کے کچھ عرصے بعد ہی طلاق لے کر واپس آ گئی تھی . اس سے چھوٹی دو بہنیں بھی اچھے رشتوں کی تلاش میں بیٹھی تھیں .

تنگ و تاریک کمرے اور بھانت بھانت کے لوگ اور آوازیں ، بانو کچھ ہی دیر میں گھبرا گئی تھی . اوپر سے خالہ رقیہ کی تینوں بیٹیوں کے انداز و اطوار اسے مزید پریشان کر رہے تھے . خاص طور پر نیلو فر کی بے تکلفی اور التفات اسے ایک آنکھ نہ بھا رہے تھے . بانو کے کپڑوں سے لے کر اس کے اٹھنے بیٹھنے تک کو مذاق کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور اختر کی زبانی یہ سن کر کہ اسے شہر دیکھنے کا بہت شوق ہے . اسی لئے اسے ساتھ لے کر آیا ہے . سب قہقہہ مار کر ہنس پڑے تھے . خفت سے بانو کا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا اور اس نے دل میں بے اختیار سوچا تھا ." اس سے اچھی تو میں پنڈ میں ہی تھی ، جہاں میری اہمیت اور وقعت تو تھی نا، یہاں آ کر تو اختر کی نظریں نیلو فر سے ہی نہیں ہٹ رہی تھیں جو خود بھی تتلی کی طرح اس کے ارد گرد منڈلا رہی تھی . بانو نے بہت ناگواری سے اس منظر کو دیکھا تھا .

*******************************

" تیری نو تو بہت تیز نکلی . شکل سے تو بھولی بھالی سی لگتی ہے ."

رشیدہ نے سب سے پہلے تبصرہ کرنا اپنا فرض سمجھا تھا کیونکہ وہ خود بھی تین بہوؤں کی ستائی ہوئی بظاھر ایک مظلوم ساس تھی . مگر در حقیقت اس نے اپنی بہووں کا جینا حرام کر رکھا تھا اور اسی بات کے طعنے اماں بہت زور شور سے مارتی تھی . آج رشیدہ کو موقع ملا تھا تو وہ بھلا کیسے پیچھے رہتی .

" شکل سے تو تو بھی بہت مسکین لگتی ہے ، مگر گنوں کی پوری ہے اسی لئے تو تیری بہوئیں آئے روز لڑ کر میکے گئی ہوتی ہیں ."

اماں نے حساب برابر کرتے ہوئے کہا تو پاس بیٹھی باقی عورتیں ہنس پڑیں . رشیدہ کا پارہ چڑھ گیا .

" دیکھ جمیلہ ! میرے منہ نہ لگیو ! تیرے گن اتنے اچھے ہوتے تو تیرا بندہ تجھ پر سوت کیوں لاتا ؟ حالانکہ بیٹے کی ماں تھی تو ، مگر اس نے مرتے دم تک اس بانجھ عورت کے ساتھ زندگی گزار دی . کبھی پلٹ کر نہ آیا اور تو یہاں اکیلی پڑی ساس کی جوتیاں کھاتی رہی ."

رشیدہ نے اپنی جگہ سے اٹھ کر ہاتھ نچاتے ہوئے کہا تو اماں کا رنگ فق ہو گیا . سب جانتے تھے کہ یہ اماں کا کمزور پہلو تھا جس پر وہ چاہ کر بھی کسی سے بات نہیں کرتی تھی .

" کیا ہو گیا رشیدہ ! بہووں کی باتیں کرتے کرتے ایک دوسرے کی ذات پر کیوں حملہ کر رہی ہو اور جس کی مثال تو نے دی ہے ، کیا تو نہیں جانتی کہ ایک نمبر کا ہرجائی تھا وہ . نیک اور شریف عورت اسے راس نہیں آئی تھی ."