شکر ہے کہ وہ بروقت کچن میں آ گئی تھی ورنہ سالن نیچے لگنے کا احتمال تھا . اس نے ساری چیزیں تیار کیں اور سب چیزیں ٹیبل پر لگا کر سب کو کھانے کے لئے آواز دی .
سب نے دلجمعی سے کھانا کھایا .کھانا مصباح نے بے حد لذیذ بنایا تھا . اس معاملے میں تو سسرال میں اسکی تعریفوں کے پل بندھتے تھے . ابھی رابعہ وغیرہ کھانے سے فراغت ہی حاصل کر رہے تھے کہ علی نے بیوی کی آنکھوں کی تحریر پڑھتے ہی ماں کو اس کے میکے لے جانے کا عندیہ دے ڈالا .
" ارے آج جانا کوئی اتنا ضروری تو نہیں ہے . اتنے دن بعد رابعہ آئی ہے . تم کل چلی جانا .یوں بھی تم پچھلے ہفتے ہی میکے گئی تھیں . تمہارا میکا کون سا دوسرے شہر میں ہے جو جانا ہی نہ ہو سکے ." ساس کو آج کے دن بہو کا گھر سے باہر نکلنا کھٹک رہا تھا .
اماں! میکا تو رابعہ آپی کا بھی دوسرے شہر میں نہیں ہے . اسی شہر میں ہے . وہ بھی دوبارہ آ ہی سکتی ہیں ." علی کے منہ میں بیوی کی زبان بول رہی تھی .
" شاباش ہے بیٹا . اچھی منہ زوری ہے . اپنی زبان بند رکھو . خیر تم لوگ کونسا میرے کہنے پر اپنا پروگرام ملتوی کرو گے . جاؤ جب طے کر ہی لیا ہے تو ." ساس کا دل خراب ہو چکا تھا .
بعض معاملات میں مائیں بھی اپنے بیٹوں کے سامنے بے بس ہو جاتی ہیں . وہ فقط یہ سوچ کر پریشان تھیں کہ ان کی بیٹی کو اب میاں سے ہزار صلواتیں سننے کو ملیں گی .
مصباح جوش اور خوشی سے تیار ہو کر پریشے کو تھامے باہر نکلی تھی . مبادا تھوڑی بھی دیر ہو گئی تو موت کا فرشتہ ان دبوچے گا . بائیک پر بیٹھی فاتحانہ انداز میں وہ میکے کی جانب رواں دواں تھی . ماں کا گھر جیسے ہی نظر آیا . دل اور آنکھوں میں ٹھنڈ ہی پڑ گئی ہو جیسے . اس نے اپنائیت سے اپنے میکے میں قدم رکھا تھا . سائرہ بھابی بھی مکمل تیار کھڑی تھیں .