" اس نے ہمیشہ دوسروں کی غلطیوں پر پردہ ڈالا ہے۔۔۔۔ قربان ہونے کی صلاحیت اس کی گھٹی میں ہے شاید۔۔۔۔ اس نے ہمیشہ خود کو بہادر کہا ہے مگر میں جانتی ہوں کہ اس نے رات کے پچھلے پہر چرچ کی سیڑھیوں پر روتے ہوئے گزارے ہیں ۔۔۔۔۔ انمول لوگ کبھی کبھی ملتے ہیں ۔۔۔۔۔ آگے تمہاری مرضی جو چاہے کرو۔۔۔۔ مگر ہمیشہ یاد رکھنا محبت میں تجارت نہیں کی جاتی۔۔۔۔"
موروں نے اڑنے کی جسارت کی تھی مگر ان کے پنکھ ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے تھے۔ جوڈتھ کو لگا وہ میرینا کو کبھی دکھ نہیں دے پائے گا۔۔۔۔۔ یہ انصاف نہیں کہ انسانیت پسند لوگوں کی راہوں میں کیل گاڑ دیئے جائیں۔۔۔۔۔
کونجوں کے ٹولے نے محفل خضریٰ کی طرف نگاه کی تھی۔۔۔۔ اور کشادہ دلی کے ساتھ پنکھ چوڑے کر دیے۔
آئیے ہم بھی "محفل خضریٰ" میں قدم دھرتے ہیں۔۔۔۔ محبت کی کہانیوں کی اول شرط احترام ہے۔
مرگھٹ کے پار کی وادی آب زلال کی باسی خضریٰ تھی۔۔۔۔ جو کہ شکل و صورت میں سیاہی کا نقاب تھی۔۔۔۔ وہ ہر طاق رات کی شام آب زلال کے شیریں کنویں کے پاس گیت گاتی تھی ۔۔۔۔ اس کے گیتوں کی مدح سرائی میں کوئلیں اور ابابیل مشغول رہتے تھے۔ سات خوشبوؤں کی رات سبت کیل میں آب زلال کے کنویں پر محبوب نے قدم رکھا۔۔۔ خضریٰ نے محبوب کی طرف نگاہ کی تھی اور اب زدہ کی سی محبت اس کے وجود میں داخل ہوئی تھی۔ محبوب کی رباعی گاتی خضریٰ پر محبوب نے اچٹتی نظر ڈالی اور گھوڑے کی باگ تھامے سفر زندگی میں قدم رکھتا چل دیا۔
ہر شام ' شام انتظار کی مانندگزرتی رہی مگر ۔۔۔۔ مسافر راستے بھول جاتے ہیں۔۔۔۔ کونجوں نے پیغام محبت کی اڑان بھری مگر لاحاصل۔۔۔۔ خضریٰ مرگھٹ کی پہاڑی چوٹی پر گیت گاتے گاتے مر گئی۔۔۔۔ امید ہی زندہ نہ بچی۔۔۔۔ دیکھنے والوں نے کہا تھا کہ اس کی انکھوں میں سبت لیل کے قصے کی اداسیاں تیر رہی تھیں۔۔۔۔ لمحہ بھر آنکھیں کھلیں لمحہ بھر میں آنکھیں کھلیں اور پھر گردن سمت مشرق ڈھلکتی چلی گئی جہان کوئی باگ تھامےگیا تھا۔
محبت کے قصے کی داستان پھر کبھی سہی۔۔۔۔ فی الحال قصہ حال کی طرف قصد کیجیے۔۔۔۔
یہ نومبر کی سرد سرد شام تھی۔۔۔۔وہی روز کے معمول کا سا ماحول تھا۔۔۔۔ آج مایا' جوڈتھ سے نئی کتاب لے ائی تھی۔۔۔۔۔ مگر جانے کیوں آج پتنگوں نے سنہری روشنیوں پر فریفتہ ہونے کی کوشش ترک کر دی تھی۔۔۔۔
شام میں گرمی کا زوال اور خنکی کا عروج صاف نظر آتا تھا۔۔۔۔ مرزا ملک نے روشنی کا نارنجی حصار توڑا تو کتاب کے اوراق پر ایک سایہ پڑ گیا۔۔۔۔ سنگی بینچ پر وہ بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔ اپنا کافی کا کپ وہ ہاتھ میں تھامے چسکیاں لے رہا تھا۔۔۔۔ دوسرا کپ بینچ پر بچی ہوئی جگہ پر رکھ دیا تھا۔۔۔۔ جو شاید نہیں یقینا مایا کے لیے تھا۔
" کون سی کتاب پڑھ رہی ہو۔۔۔؟" مدهم سا سوال سناٹے کی چادر چاک کر گیا تھا- "Moon is mine" پڑھ رہی ہوں۔۔۔۔ تم یہاں آج راستہ بھول کر اۓ ہو؟"
سوال پر سوال ڈال دیا گیا تھا۔۔۔۔ اب وہ کتاب بند کر کے کافی کا کپ اٹھا رہی تھی۔