"میں دانستہ طور پرہی آیا ہوں۔۔۔۔ اور صاف صاف کہانی واضح کرنے آیا ہوں-" مایا نے گہرا گھونٹ لیا تھا۔
ہلکا دھواں بھاپ کی صورت کپ سے اٹھ کر اطراف میں پھیلنے لگا۔ مطلب آج سارا قصہ تمام ہونے کو تھا۔
" کہانی کہہ کر میرے جزبے کی بے توقیری نہ کرو۔ کہانیاں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں۔۔۔۔ محبت حقیقت ہے۔" وہ پیٹھ موڑے بیٹھا تھا۔۔۔۔ بنچ کے سامنے فرش کے قطعے پر اس کا سایہ پڑنے لگا تھا۔
" مایا۔۔۔ محبت کرنا آسان ہے مگر اسے نبھانا بہت مشکل ہے۔ کبھی اس طرح نہیں ہوتا کہ محبت کی اور خوشی خوشی رہنے لگے۔۔۔۔ میں پاکستان کے پسماندہ علاقے کا لڑکا ہوں۔۔۔۔ جس پر پورے گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ ہو وہ محبت افورڈ نہیں کر سکتا۔۔۔۔ سب سے بڑی بات ہمارے بیچ مذہب کی دیوار ہے۔۔۔۔ پاکستان میں وقت بدلا ہے مگر سوچ ابھی تک کائی زدہ پانی کی طرح ٹھہری ہوئی ہے' میرا مذہب اجازت دیتا ہے مگر روایات نہیں دیتیں۔۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔"
وہ وضاحت دے رہا تھا ۔۔۔۔ مایا کی کپ پر گرفت سخت ہوئی تھی۔۔۔۔اک پل کو لگا کپ ٹوٹ گیا ہے۔۔۔۔ مگر نہیں۔
" تو کیا میں سمجھ لوں کہ تمہیں روایات نے زنجیر کر لیا ہے۔۔۔۔ رہی بات مذہب کی تو میں بھی رفته رفتہ اس حقیقت کو قبول کر لوں گی۔۔۔۔ انجیل مقدس اسلام کی پیش گوئی کرتی ہے' میرے ابو مسلم تھے۔ پرورش امی
نے کی تو عیسائیت کی تعلیم ملی۔۔۔۔ بہرجال اگر بات سب کچھ کہنے کی ہے تو میں اتنا کہوں گی کہ میں تا عمر تمہارا انتظار کر سکتی ہوں۔"
مایا کی بات پر آشیانے کی طرف واپس پلٹی کوئل ٹھٹکی تھی۔ خضریٰ کا قصہ پھر سے جنم لینے کو تھا۔۔۔۔۔ لیکن محبتوں کے انتظار کرنے کی روایت تو کب کی ہے۔۔۔۔۔ ہر بار موت مقدر میں نہیں ہوتی بلکہ کبھی کبھی امید' دعا اور سچی آس کی مثلث موت کو بھی ہرا دیتی ہے۔۔۔۔۔ اور مایا مثلث کے تینوں کونے تھامے کھڑی تھی۔۔۔۔۔وہ دور چمکتی ست رنگی روشنیوں کو دیکھتا ہو چُپ کی چادر اوڑھے بیٹھا تھا۔۔۔۔۔ مگر چپ توڑنا ضروری تھا۔۔۔۔
" مایا! میرے پاس تمہیں دینے کے لیے پُر آسائش زندگی نہیں ہے۔۔۔۔ میرے گھر والوں کو فی الحال میری ضرورت ہے۔ تم بہت اچھی لڑکی ہو تمہیں ہزار چاہنے والے مل جائیں گے "
مایا نے بغور ان سنہری آنکھوں میں جھانکا تھا۔۔۔۔ وہ اسے سمجھا رہا تھا یا خود کو' یہ بات جاننا مشکل تھا۔ شرمیلی ہوا نے بے باکی کی ردا اوڑھی اور سارے میں مٹر گشت کرنے لگی۔۔۔۔ روشنیاں اب بھی جل رہی تھیں۔
" جانتی ہوں کہ زندگی کا سفر گزر جائے گا۔۔۔۔ ہزاروں ملیں گے ان میں مرزا ملک نہیں ہوگا ' سمجھوتا کرنے کی کوشش بھی کرلوں تو شاید وہ یادیں کبھی بھی نہ بھول سکوں گی کہ راتوں کے کئی تاریک پہر کتاب پڑھنے کے بہانے میں نے تمہاری چوکھٹ پر گزارے ہیں۔۔۔۔ کب سے دعا کر رہی ہوں وقت سب کچھ بھلا دیتا ہے میں تمہارا "درد" بھول ہی نہ سکی۔۔۔"
اداس کونج نے جھکا سر اٹھایا تھا کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں دعاوں میں مانگا جاتا ہے۔۔۔۔ اور بلاشبہ مرزا ملک خوش قسمت تھا۔