" محبت سے بڑھ کر کوئی مجبوری نہیں ہوتی مائرہ' میں ہماری جانتی ہوں ہمارے اپنے جہاں زندگی کے بیشتر موڑ پر ہماری طاقت بنتے ہیں ' اکثر مقامات پر ہمارے لیے امتحان بھی بن جاتے ہیں تب ہمیں ان سے یا تو ہارنا پڑتا ہے یا پھر انہیں ہرانا پڑتا ہے اوریہ محبت ہی ہوتی ہے جو مشکل گھڑی میں ہم سے فیصلہ کرواتی ہے۔" وہ بولتے بولتے تھکی تھی یا پھر پہلے کی تھکن تھی جو اس کے لہجے میں اب در آئی تھی۔ مائرہ اس بات کا فیصلہ نہ کرسکی' عروسہ لمحے بھر کو رکی تھی اس کا لہجہ بھیگا ہوا تھا اس نے آنسوؤں کا گولہ
حلق سے اتارا اور سلسلہ کلام وہیں سے جوڑا جہاں سے منقطع کیا تھا۔
" اگر میزان کے ایک پلڑے پر محبوب کی محبت اور دوسری جانب والدین کی محبت رکھ دی جائے تو فیصلہ بے حد دشوار ہوجاتا ہے۔ فیصلہ کچھ بھی ہو' کسی بھی فریق کے حق میں ہو' اس کا انتخاب دوسرے فریق کو دور ہونے پر مجبور کردیتا ہے۔ فیصلہ کرنے والے کو اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ چن لے ' فیصلہ کرے تو یہ انتخاب ہوتا ہے مائرہ اگر مجبوری نہیں' مجبوری میں راستے کھلے نہیں ہوتے۔ بند ہوتے ہیں ماسوائے ایک کے تب مجبورا اس اکلوتے رستے پر چلنا پڑتا ہے' یہ ہوتی ہے مجبوری کی آڑ میں محبت کو خود قربان کیا اور دمکتے ہوۓ سیاسی مستقبل کا انتخاب کیا۔ اس نے محبت کرنے والی' بھروسہ کرنے والی' ساتھ دینے والی ہمسفر پر اس لڑکی کو ترجیح دی جو اس کا سیاسی قد مزید بلند کرنے کا باعث بنتی اگر وہ کم ہمت ہوتا' بزدل ہوتا ' میرے لیے جنگیں لڑ سکتا نہ بغاوت کر سکتا تب بھی میرے دل کو صبر آ جاتا۔ میری محبت کو بھی قرار آ جاتا کہ میرا محبوب میرے عشق میں نڈھال ہو گیا۔ میری محبت خود اسے دعائیں دیتی اس کی راہ سے ہٹ کر اس کا راستہ آسان کیے دیتی مگر وہ تو اپنی مجبوری بتاتے ہوۓ یہ بھول گیا تھا کہ وہ عروسہ یاور کے سامنے بیٹھا ہے۔ وہ عروسہ یاور جو اس کے دل تک رسائی رکھتی تھی۔ اس کے رگ رگ سے واقف تھی' مائرہ اس دن میری محبت اس کے جھوٹ' منافقت اور خود غرضی دیکھ کر ہی خاموشی سے دم توڑ گئی' وہ مجھ سے معافی مانگ رہا تھا مگر وہ لفظ کھوکھلے تھے انہیں ادا کرنے والا جھوٹا تھا اور جھوٹے انسان سے کی گئی محبت ہمیشہ بے آبرو اور بے موت مرتی ہے۔" اس کے لفظوں سے خون رستا تها کیونکہ اس کے حلق میں ٹوٹے دل کی کرچیاں چبھتی تھیں۔
" اور سب کچھ جانتے بوجھتے سمجھتے ہوئے بھی تم نے اسے معاف کردیا عروسہ؟ تم نے اس کی اصلیت اس کے منہ پر کیوں نہ ماری۔" یہ شاید آخری سوال تھا جو پوچھنے کے لیے رہ گیا تھا مائرہ کے پاس' اس سے قبل کہ عروسہ اس کی بات کا جواب دیتی۔ عروسہ کے موبائل پر آ نے والی کال نے ان دونوں کو ہی چونکا دیا۔ مائرہ کی نگاہیں بے ساختہ موبائل کی اسکرین پر جگمگاتے نام کی جانب اٹھیں' وہ بری طرح ٹھٹک کر عروسہ کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگی جو ایک بے نیازسی نگاه موبائل اسکرین پر جگمگاتے نام ڈال کر نظریں پھیر چکی تھی۔
" شہروز حسن۔۔۔۔۔ یہ اب تمہیں کیوں کال کر رہا ہے؟ جب یہ تمہیں اور تمہاری محبت کو ہار کر اپنا راستہ جدا کرنے کا فیصلہ کر چکا تو پھر تم سے رابطہ کرنے کا کیا مقصد ہے بھلا؟" مائرہ کے لہجے میں غصہ کی جھلک نمایاں تھی۔
" تم جانتی ہو' مرد دریافت کا پرندہ ہے اور دریافت کا سلسلہ کبھی نہیں رکتا۔ وہ جوں جوں دریافت کرتا رہتا ہے آگے بڑھتا جاتا ہے۔ " ابھی وہ اتنا ہی کہ پائی تھی کہ اس کی بات سن کر مائرہ افسردہ لہجے میں بولی۔