" وہ ایسے کیسے کرسکتا ہے' اس نے سب کے سامنے تم سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔ تم سے شادی کی خواہش ظاہر کی تھی؟“ مائرہ کی نگاہوں کے سامنے تقریب کا منظر گھوم رہا تھا وہ اس منظر میں کھوئی خود کلامی کے سے انداز میں گویا ہوئی عروسہ اس کی بات سن کر بے ساختہ طنزیہ انداز میں مسکرائی۔
" ارادے کا اظہار کرنا اور اس پر عملدرآمد کرنا دو مختلف باتیں ہیں۔ اظہار انتہائی آسان عمل جبکہ ان ارادوں کو پورا کرنا ہی اصل اور دشوار مرحلہ ہوتا ہے۔" عروسہ تلخ لہجے میں بولی' مائرہ خاموش سی ہو گئی ۔ عروسہ نے سولہ آنے درست بات کی تھی وہ متفق تھی اس سے۔ لاؤنج میں ایک بار پھر خاموشی پھیل گئی یہاں تک کہ صرف گھڑی کی آواز نمایاں تھی۔
یونیورسٹی ختم ہونے کے بعد بھی ان دونوں کے درمیان رابطہ ختم نہ ہوا بلکہ مزید مضبوط ہوتا چلا گیا تھا۔ سیاسی پس منظر سے وابستگی کے باعث شہراز کا جھکاؤ سیاست کی جانب بڑھتا چلا گیا۔ وہ خاندانی سوچ سے مختلف خیال کا مالک انسان تھا' وہ روایتی سیاسی ڈگر سے ہٹ کر چلنا کا خواہش مند تھا۔ سیاست میں وہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے نہیں بلکہ قومی و معاشرتی مفادات کی غرض سے آیا تھا۔ اس یونانی دیوتا کی اس خوب صورت سوچ نے ہی تو اس کی شخصیت کے چارم میں چار چاند لگا دیے تھےمگر سوچ و خیال زندگی کے کسی موڑ پر بھی بدل سکتے ہیں وہ فقط فطرت ہوتی ہے جو کبھی نہیں بدلتی۔
شہروز حسن نے عروسہ کے اصرار پر اپنے گھر والوں کو اس رشتے پر آمادہ کرنا شروع کر دیا اور کچھ ہی دنوں کے بعد عروسہ کو یہ جان فزا مژدہ سنایا کہ اس کی والدہ اگلے ہفتے عروسہ کے گھر ان دونوں کے رشتے کے سلسلے میں آ رہی ہیں۔ اس خبر کی خوشی عروسہ کے چہرے پر نور کی مانند دمک رہی تھی۔
مگر آنے والا ہفتہ آ کر بھی گزر گیا ' مگر نہ پیام آیا نہ مہمان ۔ عروسہ نے گھبرا کر ہزار میسج کر ڈالے ' کالز کیں مگر شہروز حسن کی جانب سے مستقل خاموشی کی فضا قائم رہی۔ شہروز حسن اس دن سے یوں غائب ہوا جیسے روۓ زمین پر وجود ہی نہ رکھتا ہو۔ عروسہ کو شہروز حسن کا یوں لا تعلق ہو جانا انتہائی صدمے سے دوچار کر گیا۔ وہ بلند و بانگ دعوے کرنے والا یونانی دیوتا بے وفا نکلا' اس پر یقین کرنا صرف عروسہ کے لیے ہی نہیں ان دونوں سے آشنا ہر فرد کے لیے دشوار تھا۔
اس نے ٹوٹ کر محبت کی تھی اور محبت میں ہونے والی بے وفائی نے اسے توڑ کر کرچی کرچی کر دیا تھا کیا اور اس نے خاموشی کا لبادہ اوڑھ لیا۔ وہ اپنی محبت کا رونا نہیں رونا چاہتی تھی مگر اس کی آنکھیں اس کے غم کی داستان سناتی تھیں۔ اس مشکل گھڑی میں مائرہ نے عروسہ کا بے حد خیال رکھا وہ اس کی اذیتوں' تکلیفوں اور دکھوں سے بخوبی واقف تھی۔ کوئی سات آٹھ سال کی پر اسرار خاموشی کے بعد شہروز حسن اچانک منظر عام پر آیا تو اپنی شادی کی روح فرساں خبر سنا کر وہ عروسہ سے معافی کا طلبگار ہوا تھا۔
" کیا مجبوری تھی اس کی؟" مائرہ نے ایک بار پھر دھیرے سے لب کشائی کی۔
" مجبوری۔" وہ استہزائیہ انداز میں ہنسی۔ ’’وہ کہتا ہے کہ وہ خاندان اور رسم و رواج کے آگے مجبور ہو گیا اور میں سوچتی رہ گئی کہ کیا شہروز حسن بھی رسم ورواج کے آگے سر جھکا سکتا ہے اور محبت سے بڑھ کر بھی کوئی مجبوری ہوتی ہے۔" وہ دھیمے لہجے میں کہہ رہی تھی۔