SIZE
2 / 6

چاہتی ہوں عروسہ کہ شہروز حسن تم سے ملنے کیوں آیا تھا اس دن آفس؟" مائرہ اب جھولے سے اتر کر عین اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی' لان کا بھیگا بھیگا نظارا اب عروسہ کی نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔

" تم جاننا چاہتی ہو تو سنو' وہ شادی کر چکا ہے یہی بتانے ایا تھا اور مجھ سے اپنی بے وفائی کی معافی مانگ رہا تھا۔" بالاخر اس نے تھکن زدہ لہجے میں گہری سانس لیتے ہوۓ انکشاف کر ہی ڈالا۔

" کیا۔۔۔۔۔ شادی کر چکا ہے؟" مائرہ آنکھیں پھاڑے حیرانگی سے اسے دیکھتی رہی۔

" وہ کہتا ہے بہت مجبور ہوکر اس نے یہ قدم اٹھایا' میرے سامنے شرمندہ تھا۔ معافی کا خواستگار تھا شہروز حسن۔۔۔۔۔" وہ ایک بار پھر گویا ہوئی اس بار اس کے لہجے بھی نمی جھلک رہی تھی اور اس کے لب استہزائیہ انداز میں

پھیلے ہوئے تھے اس کی بات سن کر اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹی مائرہ دھیرے سے اٹھ کر واپس اس کے برابر آ بیٹھی ' اس کے انداز میں ابھی بھی غیریقینی جھلک رہی تھی

" یقین نہیں آتا کہ شہروز حسن جیسا انسان بھی یوں مجبوری کی چادر اوڑھ کر بے وفائی کر جائے گا۔“ مائرہ زیر لب بڑبڑائی ۔ عروسہ نے اس کی بڑبڑاہٹ سن کر ایک نظر اسے دیکھا اور پھر ہولے سے مسکرا دی۔ اس کی اس مسکراہٹ میں بھید چھپے تھے' اس پل ان دونوں کی نگاہیں لشکارے مارے لان پر جمی ہوئی تھیں جہاں بارش کا زور اب قدرے کم ہو چکا تھا۔

شہروز حسن کی وجاہت کو یونانی دیوتاؤں کی وجاہت سے تعبیر کیا جاۓ تو قطعا مبالغہ نہ ہوگا۔ وہ مضبوط کسرتی جسامت کا دلفریب نقش کا مالک اپنے قول کا پکا بہادر نوجوان تھا' جو بلند ارادے رکھتا تھا اور ان ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے حوصلے بھی بلند رکھتا ہے۔ وہ سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود خوب صورت دل کا مالک بھی تھا مگر اس کے اس خوبصورت دل کی سنگھاسن پر راج کسی اور کا تھا وہ جس کا نام اس کے بلند ارادوں کی فہرست میں صف اول پر ٹھہرا تھا' جس کی پر کشش شخصیت ' خوب صورت لب و لہجہ اور منفرد سوچ کا معترف ایک زمانہ تھا وہ جو چپکے سے دل چرا لینے کا ہنر جانتی تھی وہ عروسہ یاور اس یونانی دیوتا کے دل پرحکومت کرتی تھی۔

وہ (Made for Each Other) تھے' اس بات سے پوری یونیورسٹی واقف تھی ۔ وہ آج سے نہیں اسکول کے زمانے سے ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔ ان کے درمیان بہترین ذہنی ہم آہنگی تھی۔ وہ مزاج آشنا و ہم خیال اور ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تھے ان کے ساتھ ان کی محبت کی مثالیں مشہور تھیں۔ یونیورسٹی کے آخری دن الوداعی تقریب میں شہروز نے عروسہ کو بہت خوب صورت انداز میں پرپوز کیا تھا ' تقریب میں جب اسے اسٹیج پر بلا کر یونیورسٹی میں گزارے گئے یادگار لمحوں کی یاد تازہ کرنے کی دعوت دی گئی تو شہروز حسن کی ہر یاد عروسہ یاور سے شروع ہو کراسی پر ختم ہو جاتی تھی' اس دن اس نے

محفل میں سب کے سامنے عروسہ سے اپنی محبت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے پرپوز کیا تھا۔ شہروز حسن کے اس خوبصورت اور ببانگ دل اظہار محبت کودیکھ کر عروسہ کی سب سے عزیز ترین سہیلی مائرہ نے مسکراتے ہوئے اس کے کان میں سرگوشی کی تھی۔

" میں یقین سے کہہ سکتی ہوں یہ شخص تمہارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گا' اس نے ڈنکے کی چوٹ پر تمہارا ہاتھ تھامنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ مرتے دم تک تمہارا ساتھ نبھاۓ گا۔" اور تب وہ اس کی بات پر بڑے دلکش انداز میں مسکرائی تھی۔

بارش کا سلسلہ ایک بار پھر تیز ہو چلا تھا۔