" صحیح کہہ رہی ہو تم عروسہ۔۔۔۔۔۔ مرد دریافت کا ہی پرندہ ہے اور عورت صرف اور صرف اس کی دریافت' اس کی منزل نہیں اس کا ٹھکانہ نہیں ۔ وہ کچھ عرصے اسے اپنے حسن ' اپنی ذہانت یا اپنی انفرادیت سے متوجہ ضرور کر لیتی ہے مگر ہمیشہ کے لیے اسے اپنا اسیر نہیں بنا سکتی۔" مائرہ کے لہجے سے یوں مھسوس ہوتا تھا جیسے عروسہ کے وجود کی تھکن اس کی رگوں میں بھی اترنے لگی ہے۔
" نہیں مائرہ ۔۔۔۔۔ عورت دریافت نہیں ' عورت کے روپ ہزار ہیں۔ آج سے نہیں روز اول سے' کیا تم نے لا زوال بی بی حوا کا روپ نہیں دیکھا یا اور پھر بے مثال حضرت خدیجہ کو یا محبوب بیوی کا روپ دھارے حضرت عائشہ کو نہیں جانا اور حضرت فاطمہ جیسی فرماں بردار بیٹی اور بہادر ماں' عورت کوئی ایک روپ لے کر زمین پر نہیں۔ اس کے ضمیر کے کئی رنگ ہیں' تمہیں اس جہاں میں مریم جیسی پاک دامن عورتیں بھی سانس لیتی نظر آئیں گی جو زمانے کی اٹھتی انگلیوں سے اپنی عزت و بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہوں گی۔ تمہیں انہی معاشروں میں آسیہ بھی نظر آئیں گی جو ماں کی ممتا سے لبریز اولاد کے لیے معاشرے سے لڑ بھڑیں گی اور کیا کیا روپ بتاوں مائرہ' عورت جاہ و حشمت کا شاہکار ملکہ بلقیس کے مانند بھی ہے اور کہیں نفس
کے جال میں پھنستی عزیز مصر ' وہ قیدی بھی رہی ہے۔ معاشرے' رسم ورواج' روایات کی قیدی پھر بھلے وہ معاشرہ فرسودہ ہو یا نام نہاد فضاؤں کا علمبردار ' وہ ڈیانا کی صورت معاشرے میں سانس لیتی پائی جاتی ہے جومحبت کے حصول کی خواہش میں رلتی رسم و رواج کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ وہ کبھی اپنے ہوشربا حسن کو اپنی دنیاوی خواہشات پوری کرنے کے خاطر نیلام کرتی قلوپطرہ کا بھی رنگ چرا لیتی ہے اور کبھی انسانیت کی خدمت میں دنیا تیاگ کرتی مدر ٹریسا ' اپنے درد تکلیفوں کو اپنی طاقت بنا کر دوسروں کے درد کی دوا بنتی ہیلن ۔ یہ سارے عورت کے ہی روپ ہیں مائرہ اور ہر روپ کے پیچھے ایک داستان رقم ہے اور کتنے ہی ان گنت روپ معاشرے میں سانس لے رہے ہیں مگر ہم سے مخفی ہیں۔۔۔۔۔ عورت کوئی دریافت نہیں' کوئی موضوع نہیں جس پر کتابیں لکھ کر بحث کی جائے یا اسے جانچنے پرکھنے کا کلیہ مرتب کیا جاۓ بلکہ عورت وہ تخلیق ہے جس کے وجود کو سچی محبت اور خلوص سے جیتنے کے لیے بنایا گیا ہے۔" وہ کھوئے کھوئے مگر پراعتماد ہے لہجے میں بول رہی تھی اور مائرہ حیرت زدہ سی اسے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی۔ باہر کن من برستی بارش کا سلسلہ اب تھم چکا تھا' صحن سے بارش اور مٹی کے ملن کی سوندھی خوشبو فضا میں گھل کر اپنا فسوں بکھیر رہی تھی۔ عروسہ کچھ پل خاموش رہنے کے بعد لان پر جمی نگاہیں پھیر کر مائرہ کی جانب دیکھتے ہوئے مزید گویا ہوئی۔
" عورت عنقاء ہے ' ایک ایسا پرندہ جو بے حد بلندی پر پرواز کرتا ہے اور بلندی کی پرواز کبھی بھی سہل ثابت نہیں ہوتی۔ بے شمار کٹھنائیاں ہوتی ہیں' مشکلیں ہوتی ہیں اورتب یہ پرندہ عنقاء ان مشکلوں' کٹھنائیوں اور حالات کے تھپیڑوں سے تھک کر نڈھال ہو کر انتہا کی بلندی سے انتہائی پستی پر چلا جاتا ہے مگر پستی کا انتخاب وقتی ہوتا ہے اور پھر کچھ عرصہ وہ نظروں سے غائب رہنے کے بعد اچانک منظر پر ظاہر ہوتا ہے اور پہلے سے بھی زیادہ
اونچائیوں پر پرواز کر جاتا ہے کیونکہ عنقاء علامت ہی بلند پرواز کی ہے اور عورت بھی عنقاء کے مانند ہے۔" مائرہ سحر زدہ سی اس کے لبوں سے پھول کی مانند جھٹرتے لفظوں کو سن رہی تھی وہ اسے سمجھانے آئی تھی اور اب خورکسی فرماں بردار شاگرد کے مانند سبق سیکھ رہی تھی۔