SIZE
4 / 7

" مت دیکھا کروایسے ۔"

" کیوں؟"

" تم پہ فدا ہونے لگتا ہوں ۔"

" باتیں بنانا کوئی آپ سے سیکھے۔"

" جی بالکل باتیں بنانا کوئی مجھ سے سیکھے۔۔۔۔۔ بیگم صاحبہ! آپ کی آنکھیں قدرت نے پہلے ہی اتنی بڑی بنا رکھی ہیں کہ ان کی جانب دیکھنے سے ڈر لگتا ہے اوپر سے جب آپ انہیں غصے سے مزید پھیلا لیتی ہیں تو میرے ذہن میں ریپانزل مووی کی ولن چڑیل کا عکس ابھر آتا ہے۔ اس لیے برائے مہربانی اپنی آنکھوں کو مزید پھیلانے یا سکیڑ کر خوفناک کرنے کے بجائے انہیں اپنی اپوزیشن پر ہی رہنے دیا کریں تا کہ بندہ ناچیز خوف سے محفوظ رہ سکے۔ انہوں نے میری جانب دیکھتے ہوئے آنکھ دبا کر کہا۔

اور میں کچھ کہے بنا ان کے کپڑے ہینگ کرنے کے لیے واش روم میں چلی گئی ۔ میرا چپ رہنا ناراضگی کے اظہار کی پہلی علامت تھی۔

کپڑے ہینگ کرنے کے بعد میں نے واش روم میں رکھی چیزوں کا جائزہ لیا۔ شیونگ کٹ سے لے کر ناول تک سب اپنی جگہ پر موجود تھے اور مطمئن سی ہوکر باہر نکل آئی ۔ وہ ابھی بھی موبائل پر جھکے ہوئے تھے۔ گویا کینڈی کرش کا نیکسٹ لیول اسٹارٹ ہو چکا تھا۔

" ہم سے تو گیم ہی پیارا ہے جس کی فکر میں جناب آفس سے لیٹ ہونا بھی گوارا کر سکتے ہیں ۔" میں نے ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے سوچا اور کمرے میں بکھری چیزیں سمیٹنے لگی۔

" آہم۔۔۔۔۔ کوئی جیلس ہورہا ہے۔" انہوں نے میری جانب بیڈ کشن اچھالتے ہوۓ شوخی سے کہا۔ اورمیں اپنے نام کی ڈھیٹ خفگی ناک پر سجائے کام کرنے میں مگن رہی۔

" اس پوز میں تم بالکل کرنانی لگ رہی ہو۔" اس بار انہوں نے میری تیکھی ناک کو ہدف بنایا۔

" بس کرلیا میری ذات پہ تبصرا' ہو گئی تسلی یا ابھی بھی کچھ باقی ہے۔" میں غصہ میں تھی مگر اپنے لہجے کوسرد بنانے میں ناکام رہی۔

" جی ہو گئی تسلی۔۔۔۔۔۔ مل گیا سکون ۔ " وہ اب موبائل کو چارجنگ پر لگا رہے تھے۔

" اب مہاراج کا موڈ ہو تو بندی ناشتہ بنانے کا اہتمام کرے۔" ان سے میں زیادہ سے زیاده دو پل ہی خفا رہ سکتی تھی۔

" ہاں بالکل میں تب تک فریش ہو جاؤں۔ " وہ واش روم میں گھس گئے تو میں نے افسردہ دل کے ساتھ کچن کی جانب قدم بڑھاۓ۔

" کم از کم ایک بار غلطی سے پوچھ لیتے کہ آخر ایسی کون سی خوشی ہے جس کی وجہ سے میری آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہہ رہے مگر نہیں یہ تو ہیں ہی صدا کے بے مروت۔" وہ آفس

چلے گئے اور میں پورا دن اسی غم میں مبتلا رہی۔ پرانی ہیروئینوں کی طرح کسی کونے میں بیٹھ کر دل ہی دل میں سسکتی رہی۔ ایک

وہ ہیں جنہیں میری خوشی عزیز ہے نہ بہتے آنسووں کی قدر اور ایک میں ہوں جو قدم قدم پر ان کے اگے بچھی جاتی ہوں۔ اورپچھلی شب میں نے ایک خواب دیکھا۔

" خواب۔۔۔۔۔ کہیں خواب میں تم ہمالیہ تو نہیں گئی یا پھر فیری میڈوز۔" انہوں نے میری ڈریم پلیسز کا نام لیتے ہوۓ کہا۔ میں ایک پل کے لیے رکی' سرد آہ بھری اور پھر چاول باؤل میں نکالتے ہوۓ نفی میں گردن ہلائی۔

" ترکی کا ویزا مل گیا ہوگا پھر۔" وہ جانتے تھے کہ نمرہ احمد کا ناول جنت

کے پتے پڑھنے سے لے کر اب تک میں کئی بار خوابوں کی دنیا میں ترکی کی سیر کر چکی ہوں۔ میجر جہان سکندر تو جیسے میرے دل و دماغ میں بسے ہوئے تھے اور بہارے گل کی معصومیت لیکن عظیم نصیحتوں نے مجھے جیسی ماڈرنزم کی گروید ہ لڑکی کی آنکھیں کھول کر رکھ دی تھیں ۔ تب سے جنت کے پتے تھامے تھے اللہ کے فضل سے آج بھی انہیں تھامے ہوئے ہوں۔

" ترکی کا ویزہ' ہاں وہ بھی باعث مسرت ہوسکتا ہے مگر اب کی بار وجہ کچھ اور ہے۔"

" کوئی اور وجہ ؟ " انہوں نے دماغ پر زور دیتے ہوۓ کہا۔