" یقینا تم خواب میں انڈیا گئی ہو گی اپنی فیورٹ اور ہر دل عزیز فرینڈ شبنم علی راجپوت سے ملنے۔"
" شبو آپا۔۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔ عرصہ ہوا ان سے کوئی کانٹیکٹ نہیں رہا۔ ان کا فیس بک اکاونٹ پچھلے تین ماہ اسے ڈی ایکٹویٹ ہے اور واٹس ایپ پر بھی وہ ری پلاۓ نہیں کرتیں۔" میں زمانے بھرکی افسردگی اپنے نازک لہجے میں سمو لائی تھی۔
" پھر تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں تمہیں خواب میں وہی ملی ہوں گی۔"
" ارے نہیں بھئی نہیں ملی مجھے ان کی فرینڈ لسٹ میں جب سے نازیہ کنول نازی، سمیرا شریف طور' سباس گل ، عشنا کوثر سردار اور صائمہ اکرم چوہدری' حمیرا ندیم نفس اور فیم انجم جیسی مایہ ناز اور مشہور رائٹرز آئی ہیں تو وہ تو جیسے مجھے بھول ہی گئی ہیں ۔" انہوں نے میری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تو میں نے سلاد کی پلیٹ ان کے سامنے رکھتے مزید سوگواری سے کہا۔
" چلیں اب آپ بتا دیں ایسا کیا دیکھ لیا خواب میں جس کے زیر اثر آپ صبح پورے دو گھنٹے روبوٹ بنے بیٹھی رہیں۔
" خوب صورت سا سرورق ' دور تک پھیلے ریڈ کارپٹ اور اس ریڈ کارپٹ کے ایک سرے میں موجود نفیس و نازک سی دوشیزہ۔ بہتے جھرنے کی مانند جس کی مسکان آنکھوں کے راستے دل میں اتر کر ہلچل مچانے لگی تھی ۔" میں نے خواب کی سی کیفیت میں بیان کیا۔
"کیا مطلب ؟ " عالبان نے نا سمجھی کے عالم میں مجھے گھورا۔
" مطلب یہ کہ میں خواب میں آنچل ڈائجسٹ لیے بیٹھی تھی اور نہ صرف لیے بیٹھی تھی بلکہ آنچل کی فہرست میں میرے ناول کا نام بھی شامل تھا۔ اسی ناول کا جو میں نے آپ کو پوسٹ کروانے کے لیے دیا تھا اور آپ نے میرا وہ ناول کہاں گم کیا یہ میں بھی نہیں جانتی۔ اچھا بھلا میں اپنا ناول پڑھنے ہی والی تھی کہ آپ کے موبائل پر بجنے والے آلارم نے میری آنکھ کھول دی۔ میں خواب بھولے بھٹکے سے ہی دیکھتی تھی اور جب کبھی دیکھ ہی لیتی تھی تو انہیں یاد رکھنا میرے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوتا تھا ۔ جب ہی رک رک کر ذہن پر زور دیتے ہوۓ میں انہیں پچھلی شب کی روداد سنا رہی تھی۔"
" اوہ تو یہ خواب دیکھا تھا محترمہ نے پر مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی؟" انہوں نے تشو پیپر سے ہاتھ صاف کرتے ہوۓ کہا۔ " وہ کیا؟"
" آپ نے جو آنسو بہائے تھے وہ ماہنامہ آنچل کی فہرست میں اپنے ناول کی شرکت کی خوشی میں بہائے تھے یا پھر میرا آلارم بجنے کی وجہ سے ناول نہ پڑھنے کے غم میں۔" انہوں نے میرا کان پکڑ کر چھیڑتے ہوۓ کہا۔ " " ایسا نہ کیا کریں مجھے الجھن ہوتی ہے۔"
" اوہ مجھے آج پتا چلا کہ میری گڑیا کو بھی کسی چیز سے الجھن ہوتی ہے۔ " انہوں نے لاڈ سے کہا۔
" چھوڑیں میرا کان' میں لاسٹ نائم منع کررہی ہوں آپ کو اگر آپ اب بھی باز نہ آئے تو میں تائی اماں سے شکایت کر دوں گی۔" میں اپنا کان چھڑاتے ہوئے بمشکل انہیں کہہ پائی۔
" اچھا بابا چھوڑ دیتا ہوں ۔ میرے دو تین سوٹ بیگ میں رکھ دینا آفس کے کسی کام کے سلسلے میں' میں نے کراچی جانا ہے۔" وہ یک دم سنجیدہ ہوئے۔
" اجی اچھا۔" میں نے مختصرا کہا۔ وہ اپنا موبائل آن کر کے ایک بار پھر کینڈی کرش کی جانب متوجہ ہوگئے اور میں خاموشی سے برتن سمیٹے لگی۔
وہ اپریل کی ایک ٹھنڈی صبح تھی۔