SIZE
2 / 7

" اوکے میں چلتا ہوں آفس کا ٹائم ہوگیا ہے۔" انہوں نے اپنی کلائی پر بندھی بیش قیمت گھٹری دیکھتے ہوئے کہا اور میں ان کی بے مروتی دیکھ کر اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔ آہ جانے وہ بیویاں کون سی خوش قسمت مخلوق سے تعلق رکھتی ہیں جن کے شوہر مجھے ہے حکم اذان کے سائیڈ ہیرو عباس عرف ساحر کے جیسے عظیم اور کواپریٹیو ہوتے ہیں۔

" سنو شام میں ڈنر اچھا سا تیار کرنا میرے کچھ دوست آرہے ہیں۔ کسی قسم کی کمی نہیں ہونی چاہئے۔ ویسے تو ضرورت کا سارا سامان کچن میں موجود ہے لیکن اگر پھر بھی تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہوتو رحمان بابا کے ساتھ جا کر مارکیٹ سے لے آنا۔ پیسے میری وارڈروب میں رکھے ہیں۔" وہ لفافہ ہاتھ میں لے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔

" میرا ناول۔۔۔۔۔۔" میں ہچکچائی۔

" دیکھو اگرلکھنا ہی تمہارا پیشن ہے تو دل کھول کر لکھو۔ تمہاری سب ہی جائز خواہشات میرے لیے قابل احترام ہیں۔"

" سچی۔‘‘ میں کسی چھلاوے کی مانند اچھلی اس ایک پل میں میرے شوہر مجھے فواد خان لگے تھے۔

" مچی۔" وہ مسکراۓ۔

" لکھنا ہی ہے تو میرے لیے لکھو۔ میں پڑھوں گا تمہیں ' کسی ڈائجسٹ وغیرہ میں پبلش کروانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔" ایک لمحے میں فواد خان الله

جانے جابرخان کیسے بن گئے تھے۔

" وہ کوئی عام ڈائجسٹ نہیں ہے۔ جس میں میں لکھنا چاہ رہی ہوں وہ آنچل ہے' آنچل ڈائجسٹ۔ نام تو سنا ہو گا آپ نے۔" میں نے ان پر ذرا رعب ڈالنا چاہا تھا۔ " سمیرا شریف طور جن کا ڈرامہ یہ چاہتیں یہ

شدتیں بڑے شوق سے دیکھتے ہیں آپ وہ بھی تو اسی ڈائجسٹ کی شان ہے اور اقبال بانو آپا بھی ہمارے انچل کا حصہ ہیں۔ جن کا کوئی بھی ڈرامہ آپ مس نہیں کرتے۔‘‘ میں نے انہیں امپریس کرنے کے ساتھ ساتھ تھوڑا سا بلیک میل بھی کیا۔

" جو بھی ہے اگر تم لکھنا چاہتی ہو تو صرف میرے لیے ہی لکھوگی۔ میں بھی تو ذرا چیک کروں کے کتنے پانی میں ہیں محترمہ۔"

"آپ چیک کریں گے پرآپ کے تو اردو میں نمبر مشکل سے ۳۳ تھے اور اے لیول میں بھی آپ رٹا لگا کر اردو میں پاس ہوئے تھے۔‘‘ میری زبان سے اچانک پهسلا۔

وہ خاموش رہے لیکن ان کی غضب ناک نگاہیں کسی ہٹلر ولن کی نگاہوں کی مانند مجھے کئی لمحوں تک مسلسل گھورتی رہیں۔

" مارے گئے۔۔۔۔۔" میں نے زبان دانتوں تلے دبائی۔

اور وہ بنا کچھ کہے کرسی کی پشت پر لٹکا اپنا کوٹ اور میز پر سے گاڑی کی چابیاں اٹھا کر چل دیے۔ میں انہیں سی آف کرنے کے لیے مرے مرے اٹھاتے ہوئے قدموں سے دروازے تک آئی۔

اور پچھلی شب میں نے ایک خواب دیکھا۔

یہ خواب ننھے بچوں کے پریوں کے اور زرق برق کھلونوں کے خوابوں جیسا عام نہیں تھا۔ نہ ہی اس خواب میں میرے کسی ملک یا ریاست کی رانی صاحبہ بننے کی منادی کرائی گئی تھی۔ اس خواب میں پاکستانی عوام کے خوابوں کی طرح بجلی کا بحران ختم ہوا تھا نہ ہی سالہا سال سے جاری کشمیر کی آزادی کے لیے کی جانے والی جدوجہد کوئی خاص رنگ لائی تھی۔ یہ خواب الہڑ مٹیاروں کے نین کٹوروں میں بسے کسی حسین شہزادے کی آمد کے خواب سا بھی نہیں تھا اور نہ ہی حکمرانوں کی نظر سے دیکھے جانے والے مہنگے اور اعلیٰ ترین خوابوں جیسا بیش قیمت۔ یہ خواب خاص تھا کے عام ' مہنگا تھا یا سستا' بہتر تھا یا بہترین میں نہیں جانتی لیکن اس ایک خواب میں میرے لیے پوری زندگی کا سامان موجود تھا۔ خوشی' ہنسی' کھلکھلاتے ہوۓ قہقہے اور ان سب سے ماورا محبت۔۔۔۔۔ محبت کی برسات۔۔۔۔۔۔ میرے لیے یہ خواب بیش قیمت تھا۔ انمول بلکہ بے حد انمول تھا۔ میرا روم روم مہک اٹھا۔ میرے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی۔ بالکل ویسی ہی خوشی جیسی خوشی کسی ماں کو صدیوں سے پردیس میں مقیم اپنے اکلوتے لاڈلے کو واپس پلٹا دیکھ کر ہوتی ہے۔ میری آنکھیں چندھیا گئیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہمارے پرانے محلے میں گلی کے نکڑ میں واقع ایک ٹوٹے ہوئے کمرے کے واحد مکین ایم اے پاس ناصر علی کی آنکھیں اچانک نوکری اور اچھی رہائش کی خبر سن کر چندھیائی تھیں۔ میں کھل گئی' نہال ہوگئی۔ خوشی کی پھوار اس قدر تھی کہ میری آنکھوں سے دو ننھے آنسو ٹپک پڑے کب اور کیسے یہ میں نہیں جانتی۔