میں اپنی رو میں کہتا چلا گیا۔
" ہیں!" ماں نے نظر اٹھا کرمجھے دیکھا۔ میں اس کے پہلو میں لیٹا ہوا تھا۔ اس کے یوں محبت سے گھورنے پر شرمندہ ہو گیا۔
" اچھا نا' مانوں گا۔۔۔۔" وہ مطمن ہو کر دوبارہ لیٹ گئی اور میرے بالوں کو سہلاتے سہلاتے سوگئی مگر نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
میرے پاس صرف آج کی رات تھی۔ مجھے جو کچھ کرنا تھا۔۔۔۔ آج ہی کرنا تھا۔۔۔۔۔ مگر کیا؟
میں نے دونوں ہاتھ مضبوطی سے دیوار پر جمائے۔ اپنے چھریرے بدن کو بالکل ڈھیلا چھوڑ کر اوپر کو کھینچا اور چوکنا نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھتا ہوا دھم سے اس کے گھر میں کود گیا۔ میرے کودنے سے دھیمی سی آواز پیدا ہوئی تھی مگر مجھے وہ ایٹم بم کی آواز لگی ۔ میں دم سادھے کچھ دیر وہیں رکا رہا۔ اس روز پہلی دفعہ مجھ پر لوڈ شیڈنگ کی برکات آشکار ہوئیں۔ سچ کہا ہے جس نے بھی کہا ہے کہ ہر خرابی میں تعمیر کی بھی صورت مضمر ہوتی ہے۔
چند لمحوں بعد جب میری آنکھیں اندھیرے سے مانوس ہوئیں تو میں نے گھر کا جائز لیا۔ دو کمروں کا گھر تھا بالکل ہمارے گھر جیسا۔
چھوٹا سا صحن عبور کرکے میں ایک کمرے کی طرف بڑھا اور دروازہ کھول کے اندر آ گیا۔ کچھ لمحوں بعد مجھے اندازہ ہوا کہ کمرے میں کوئی نہیں ہے تو میں نے جیبی ٹارچ نکالی اور الماری کی طرف بڑھا۔ مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اس نے قبضے میں لی گئی ہماری گیندیں کہاں چھپائی ہوں گی۔ پتا نہیں اس کی نظر میں ان تھی مگر میرے لیے وہ بہت قیمتی تھیں۔ اور میں نے آج تک ماں کو قیمتی چیزیں الماری میں ہی رکھتے دیکھا تھا۔ اسی لیے میں سب سے پہلے الماری کی طرف بڑھا۔
ا یک خانے میں کچھ کپڑے تھے۔۔۔۔۔ دوسری طرف کے ایک خانے میں کچھ کھلونے' گڑیائیں اور اسی قسم کا الم غلم۔(یقینا یہ بھی اس نے دوسرے بچوں سے چھینی ہوں گی۔ میرے دل میں اس کے حوالے سے منفی سوچ کے علاوہ کچھ آتا ہی نہ تھا)۔
مگر مجھے جس چیز کی تلاش تھی وہ کہیں نہ تھی۔ آخر کو چڑیل تھی نا' پتا نہیں اس شیطانی دماغ نے انہیں کہاں چھپایا تھا۔ میں ابھی جائزہ لے ہی رہا تھا کہ میں نے اس کی کڑکدار آواز سنی۔ " کون ہے؟"
میرے تو ہاتھ پاؤں ہی پھول گئے۔ میں اس کے گھر میں ایک چور کی حیثیت سے موجود تھا حالانکہ مجرم وہ تھی اور پکڑا میں جاتا۔ مگریوں نامراد جانا بھی مجھے گوارا نہ تھا۔ میں نے ٹارچ بند کی۔ جلدی سے جیب سے شاپر نکالا اور جو چیز میرے ہاتھ لگی اس میں ٹھونسی اور لپک کرصحن کا رخ کیا اور منٹوں میں باہر-میرا ہیولہ دیکھ کر وہ ہذیانی اندازمیں چیخنے لگی تھی مگر میں نے اپنے اوسان بحال رکھے اور اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے گھر بخیروعافیت پہنچ گیا۔
میرا دل کنپٹیوں میں دھڑک رہا تھا۔ میں نے جلدی سے شاپر اپنے اسکول کے بیگ میں چھپایا اور اپنے بستر میں گھس گیا۔ باہر شور بڑھ رہا تھا۔ میں نے
خوف سے آنکھیں بند کیں اور چادر سر تک تان لی۔
اس روز پتا چلا میں اتنا بہادر تھا نہیں جتنا کہ اپنے آپ کو سمجھتا تھا۔
اگلی صبح جب ہم جانے لگے تو ابا سامان اٹھا اٹھا کر ٹیکسی کی چھتپر رکھنے لگا۔ ہم غریبوں کا سامان تھا ہی کتنا۔ مگر ابا پھر بھی اسے سنبھال سنبھال کر رکھ رہا تھا۔ میں نے اس کا چہرا دیکھا۔ مطمئن اور مسرور۔۔۔۔ ماں بھی خوش تھی ۔ ایک حسین سپنا اس کی آنکھوں میں بھی جگمگا رہا تھا اور میں۔۔۔۔ میرا دل رو رہا تھا۔ میں اپنی سب سے قیمتی دولت دوست یہیں چھوڑ کر جا رہا تھا۔
نعمان اور جاوید محلے کے مرکزی دروازے پر اداس کھڑے تھے۔ میں تیزی سے ان کی طرف لپکا۔ مجھے دیکھ کر وہ بھی ضبط کا دامن چھوڑ بیٹھے اور پھر ہم تینوں دوست مل کر اتنا روۓ ' اتنا روۓ کہ شاید ہی کوئی رویا ہو۔
ہماری ہچکیاں بندھی ہوئی تھیں جج ماں نے آ کر مجھے ان سے جدا کیا۔ میرے آنسو پونچھے۔ ان دونوں کے ہاتھوں کو بھی باری باری چوما' انہیں دعائیں دیں اور مجھے لے کر گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔ ابا نے گاڑی کا دروازہ کھول رکھا تھا۔ بس میرا ہی انتظار ہو رہا تھا۔ جوں ہی میں گاڑی میں بیٹھا۔ میری نگاه غیرارادی طور پر اوپر اٹھ گئی۔