SIZE
3 / 9

اب کرکٹ میں شاٹ نہ مارا تو کھیل ہی کیا۔ ہماری بد نصیبی یہ تھی کہ جوں ہی ہم لوگ شاٹ مارتے' گیند ہوا میں تیرتی ہوئی سیدھی اس بڑھیا کی بالکونی پہ لینڈ کرتی جسے بچوں سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ میرا خیال تھا کہ اللہ نے اسے اسی لیے بچوں سے محروم رکھا ہے کیوں کہ وہ بچوں سے محبت نہیں کرتی۔ وہ کٹھوردل کی ' محبت و ہمدردی کے جذبوں سے خالی' ایک محروم عورت تھی۔

میری ماں دنیا کی سب سے شاندار عورت تھی وہ مجھ سے تو محبت کرتی ہی تھی میرے دوستوں سے بھی محبت کرتی تھی۔ ساری مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں' پیار کرنے والی ۔ محبت کی مٹی سے بنی۔ تب ہی تو وہ مائیں بنتی ہیں۔ مگر یہ عورت ۔۔۔۔۔ یہ چڑیل ظالم تھی نا اسی لیے تو ماں نہیں تھی ۔ اور ظالم کو سبق سکھانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ معافی تو مظلوموں کی آس توڑ دیتی ہے۔ میں نے ہر صورت اسے سبق سکھانے کا تہیہ کر لیا تھا ' اسی لیے میرا دل نئی نئی تاویلیں گھڑ رہا تھا۔

اس محلے میں وہ ہمارا آخری دن تھا۔ ابا اپنے دوستوں سے ملنے گیا ہوا تھا اور ماں بھی محلے کے ایک ایک گھر میں جا کر الوداعی ملاقات کر رہی تھی اور میں اپنے دوستوں کے ساتھ افسردہ بیٹھا تھا۔ ہم تینوں غمزده تھے۔ میرا دل گواہی دے رہا تھا کہ اب شاید ہمیں دوبارہ ملنا نصیب نہیں ہو گا۔ ابھی ہماری چھٹیاں شروع ہوئے صرف پندرہ دن ہی گزرے تھے کہ ماں نے جدائی کی روح فرسا خبر سنا دی تھی۔ اور ابھی تو مجھے جھکی بڑھیا سے بدلہ بھی لینا تھا۔

ابھی تو بہت سارے کام باقی تھے اور وقت بہت کم تھا۔

ہم تینوں کی اس گھر میں آج آخری رات تھی۔ کل صبح کی گاڑی سے ہماری روانگی تھی۔ ماں نے سرشام ہی بستر لگا دیا تھا۔ ابا تو کب کا سوچکا تھا۔ ماں پتا نہیں کن خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی جب میں نے اسے مخاطب کیا۔

ماں میرے سارے دوست ادهر ہی رہ جائیں گے۔۔۔۔ تو ابا سے بول وہ نہ جاۓ۔۔۔۔ اس کے بھی تو سارے دوست یہاں ہیں۔۔۔۔ دوستوں کے بغیر زندگی کا کیا مزہ۔۔۔۔"

" لے! تو دنیا میں دوستوں کی کمی ہے کیا' وہاں بھی تجھے بہت اچھے اچھے دوست مل جائیں گے۔۔۔۔"

لیکن وہ نعمان اور جاوید جیسے تو نہیں ہوں گے۔ " میرا گلا رندھ گیا۔

" وہ نعمان اور جاوید جیسے ہی ہوں گے۔ سارے اچھے لوگ ایک جیسے ہی ہوتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہاں کھیلنے کے لیے بڑے بڑے گراونڈ بھی ہیں تو۔۔۔۔ خوب جی بھر کے کھیلنا اور مزے کی بات یہ کہ وہاں جھکی بڑھیا بھی تو نہیں ہوگی۔" میرے منہ سے ماں اتنی دفعہ اس کے لیے لفظ جھکی بڑھیا سن چکی تھی کہ بے ساختہ اس کے منہ سے بھی یہی لفظ نکل گیا۔

اس کے منہ سے لفظ جھکی بڑھیا نے مجھے بڑا مزہ دیا۔ میں کھلکھلا کرہنس پڑا تو وہ بھی ہنسنے لگی۔

"ماں! جب میں بڑا ہو جاؤں گا نا تو بہت محنت کروں گا اور بہت سارے پیسے جمع کر کے واپس کراچی آ جاؤں گا اور یہ جو ہماری بلڈنگ کے سامنے گراؤنڈ پڑا ہے نا اسے ' اس کے بد تمیز چوکیدار سمیت خرید لوں گا۔ پھر ہم وہاں کھیلیں گے۔۔۔۔ پھر تو وہاں کھیلنے سے منع نہیں کرے گی نا۔۔۔۔

"تو میں یہاں کھیلنے سے کب روکتی ہوں۔"

" ہاں۔۔۔۔ مگر چل چھوڑ۔۔۔۔ ویسے بھی جب میں پڑا ہو جاؤں گا تو پھر تیری بات تھوڑی مانا کروں گا۔"