وہ گلی میں کھلنے والی اپنی گیلری میں کھڑی تھی اور ہمیں ہی دیکھ رہی تھی ۔ نجانے اس کی نگاہوں میں کیا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے نظریں ہٹا کے سڑک پر جما دیں' جہاں ہماری گاڑی تیزی سے دوڈ رہی تھی۔
میں زندگی میں صرف تین مرتبہ رویا تھا ۔ ایک اس وقت جب نعمان اور جاوید سے بچھڑ کر میرپور چلا آیا تھا۔
دوسرے ماں کی موت پر ۔ ابا نے سعودیہ میں دوسری شادی کرلی تھی اور ماں اس غم کوسہہ نہ سکی تھی۔ یہ عورتیں بھی عجیب ہوتی ہیں' جن سے محبت کرتی ہیں ان کے لیے ان کے دل اتنے وسیع ہوتے ہیں کہ ان کی ساری خطائیں ' کوتاہیاں' خود غرضیاں حتی کہ بے وفائیاں بھی برداشت کر لیتی ہیں مگراتنی نازک کے شراکت کے ذرا سے بوجھ سے ٹوٹ جاتے ہیں' بند ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ ماں نے ابا کی طویل جدائی تو برداشت کر لی تھی مگر اس کی دوری کا غم اسے لے ڈوبا۔
اور تیسرے آج ۔۔۔۔ آج جب ڈاکٹر نے مجھے یہ روح فراش خبر سنائی کہ میں کبھی باپ نہیں بن سکتا کیونکہ میں پیدائشی بانجھ تھا۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔ بچوں کے بغیر زندگی بھی کوئی زندگی تھی۔ بچے جو اس کائنات کا حسن ہیں جن کے دم سے دنیا کی رونقیں ہیں۔ میں اس بیش بہا دولت کو پانے سے محروم تھا۔ میرے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں بھینچ کر مسل دیا تھا۔ یکدم ہی میرا شاندار وجود کسی کھنڈر میں تبدیل ہو گیا تھا۔
میرا خیال تھا کہ صرف وہ لوگ اولاد سے محروم ہوتے ہیں جو محبت کے جذبے سے نا آشنا ہوتے ہیں مگر میں تو ایک رفیق اور گداز دل کا مالک تھا۔ رب کا فرماں بردار بھی تھا اور ماں باپ کا بھی' میں نے تو اس کے بندوں کو کبھی نہیں ستایا تھا۔ پھر بھی محرومی۔۔۔۔
اگر میری بیوی ناہید بانجھ ہوتی تو وہ میری دوسری شادی کرا دیتی۔ مجھے یقین کی حد تک گمان تھا کیوںکہ وہ مجھ سے بے حد محبت کرتی تھی اور بچوں کی اسے بھی شدید چاہ تھی اور شاید میں بھی دوسری شادی کرلیتا' میں اپنے بارے میں یقین کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن ستم ظریفی یہ تھی کہ اس میں کوئی نقص نہ تھا 'ادھورا تو میں تھا۔ میں نے روتے روتے سراٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ ملول و افسردہ چہرا لیے مجھے ہی دیکھ رہی تھی۔
" تم اگر چاہو تومیں تمہیں آزاد کر سکتا ہوں۔" میں نے کس دل سے یہ بات کہی تھی میرا رب ہی جانتا تھا۔ وہ یہ سن کر تڑپ گئی ۔ "اس سب میں میرا کیا قصور؟"
" تمہارا قصور نہیں ہے اس لیے تو ایسا کہہ رہا ہوں۔ میرے ساتھ رہ کر تم کیوں محرومی کی زندگی گزارو۔۔۔۔ کسی اچھے آدمی سے شادی۔۔۔۔"
" بس۔۔۔۔ بس کر دیں۔" وہ روتے روتے سے میرے گلے لگ گئی۔
خاموشی' تنہائی اورآنسو۔ اب شاید یہی میرا مقدر تھے۔
آیک زمانے بعد میں پھر کراچی جا رہا تھا۔ میرا تبادلہ ہو گیا تھا۔ میری بیوی ناہید' بہت پُر جوش ہو کر سامان باندھ رہی تھی۔ ہماری روانگی صبح تھی۔ میں نے بھی اپنے ضروری کاغذات اور دیگر چیزیں سمیٹ لی تھیں۔ اور ایک آخری بار الماری میں نگاہ دوڑائی کہ کچھ رہ تو نہیں گیا کہ سب سے نچلے خانے کو ٹٹولتے ہوئے ایک شاپر میرے ہاتھ سے ٹکرایا اور میں نے اسے باہرکھینچ لیا۔
لمحہ کا ہزارواں حصہ نہ لگا اسے ہپہچاننے میں۔ اسے وہ شاپر دیکھ کر کیا کیا نہ یاد آ گیا تھا۔
وہ بھی ایک ایسی ہی رات تھی۔ الوداعی رات۔ رخصتی کی رات۔۔۔۔ جدائی کی رات۔۔۔۔ اورگناہ کی رات۔ اس رات کے اندھیرے نے میرا بھرم رکھ لیا تھا ۔ مجھے ماں کی نظروں میں گرنے سے بچا لیا تھا۔ میں نے ندامت سے سر جھکا لیا۔ ناہید کسی کام سے اندر آئی تو مجھے یوں بیٹھا دیکھ کر پریشان ہوگئی۔
" کیا ہوا ایسے کیوں بیٹھے ہیں اور یہ کیا ہے؟" اس نے بولتے بولتے میرے ہاتھ سے شاپر لیا۔ اور اس میں موجود تمام سامان بیڈ پر گرا دیا۔
وہ حیرت سے ان چیزوں کو دیکھ رہی تھی اور میں نے بھی پہلی بار دیکھا کہ میں نے کیا چرایا تھا۔ کپڑے کی بنی دو گڑیائیں تھیں۔ ایک ننھی سی بے بی فراک' ایک جھنجنا اور ایک دوپٹہ ۔ یہ ساری چیزیں بوسیده ہو گئی تھیں اور اپنا اصلی رنگ کھو بیٹھی تھیں۔