SIZE
4 / 8

" اور گیلن بھر بھر کر دو محلے والوں کو پانی کے۔ دنوں میں بھرا ٹینک ختم کردیتی ہو...........خود ایک گھونٹ پینے کو نہیں اور یہ ایدھی کی جانشین ڈول بھر بھر لٹا رہی ہیں۔"

یسریٰ دن کے کسی بھی وقت اس کے خوب لتے لیتی رہتی' یہ سچ تھا کہ اس نے ہر مانگنے والے کو میٹھا پانی بھر بھر دیا تھا

کیونکہ انڈر گراؤنڈ ٹینک کی بدولت کافی سہولت رہتی تھی۔

ویسے تو روٹین میں پانی ہر پندرہ دن بعد آ جاتا تھا لیکن اس دفعہ پائپ لائن کی مرمت کی وجہ سے کافی لیٹ ہو گیا تھا۔ پورا ایک ماہ بند رہنے کی وجہ سے موٹر پمپ کے پرزے جام ہو چکے تھے۔ راخیل بھیا نے موبل آئل کی بوتل کو جھٹک جھٹک کر چند قطرے برآمد کیے اور پمپ کے پرزوں میں انڈیلے مگر کوئی فرق نہ پڑا۔۔۔۔ پرزوں کی گڑگراہٹ اور اوپر سے پانی کا کم پریشر۔

" یہ دو ماہ پہلے میں موبل آئل کی بوتل بھر کر لایا تھا' اب یہ چند قطرے بچے ہیں کہاں گیا سارا آئل؟ پیتے ہو تم لوگ کیا؟ مارے جھنجلاہٹ کے چیخ کے پوچھا تھا۔ موٹر پمپ کا شور' کانوں کو بے حد برا لگ رہا تھا۔

" ارے مجھ سے کیا پوچھتے ہیں ' اپنی اس لاڈلی بہنا سے پوچھئے جو اپنی سخاوت کے دریا میں موبل آئل بھی بہا بیٹھیں۔" یسریٰ نے چمک کر وشمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ طنز سے کہا۔

" وشمہ کہاں گیا سارا موبل آئل۔۔۔۔۔ کسے دیا تھا؟" راحیل نے سنجیدگی سے اس کی طرف رخ کیا۔

" وہ بھائی خالہ خدیجہ اپنی موٹر میں ڈالنے کے لیے لے گئی تھیں۔۔۔۔" وہ سر جھکا کر بدقت بولی۔

" اور یہ بھی بتاؤ ناں اپنے بھائی کو کہ بوتل بھر لے گئی تھیں خالہ خدیجہ اور چند قطرے بچا کر لے آئیں۔" یسریٰ نے ایک اور تپتا' كلستا جملہ پھینکا۔ حد ہوتی ہے بے وقوفی کی' یہ بھی کوئی موبل آئل دینے کی چیز ہوتی ہے لوگوں کو۔" راحیل نے غصے سے سر جھٹکا۔

" ارے موٹر کے تیل کا کیا پوچھتے ہیں۔۔۔۔۔ یہ تو سر پر لگانے کا تیل 'پکانے کا تیل، گھٹنوں پرمالش کا تیل ' ہر قسم کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہیں۔" شوہر کا مزاج برہم پا کر یسریٰ جلتی پر تیل چھڑکنے لگی تھی۔

راحیل کو وشمہ پر بھی غصہ نہ آیا تھا' یسریٰ وشمہ کی فضول خرچی اور بے دریغ ادھر ادھر لٹانے کی شکایت لگاتی رہتی تھی مگر وہ سب کچھ اگنور کیے رکھتا تھا کیونکہ وہ اپنے مرحوم والدین کی تربیت کے اثر کو ہرگز مٹانا نہیں چاہتا تھا مگر اس وقت ہلکی دھار سے آ تا پانی اور سپلائی مین کی ہدایت۔۔۔۔۔ ٹھیک دو گھنٹے بعد پانی بند کر دیا جائے گا۔۔۔۔ غصہ انا فطری امر تھا۔

" دیکھو وشمہ ۔۔۔۔۔ تم بچی نہیں ہو کر گھر کی ضرورتیں سمجھ نہ سکو۔ ٹھیک ہے کوئی ایسا گردن سے ہاتھ میں نے نہیں باندھ رکھا مگر تم خیال تو رکھا کرو۔" رکھائی سے کہتے ہوئے راحیل بھائی نے بائیک کو کک لگائی' اراده بازار سے موبل آئل کی دوسری بوتل لانے کا تھا۔

" تھوڑے کو بہت جانو وشمہ ' تمہارے بھائی کی ناراضی بلا وجہ نہیں۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے' کچھ تو خیال کرو' تمہارے ابا مرحوم کا دور سستا تھا ' تم دو بہن بھائی آرام سے پل گئے' ہمارے پانچ بچے' ہزار ضرورتیں' اوپر سے تمہارا فرض ادا کرنا ہے' مہربانی کر کے ذرا اپنی ہمدردانہ فطرت کو کنٹرول کرو اور اگلے گھر جا کر شوق سے سخاوت کے جھنڈے گاڑنا میرا گھر تمہاری اسراف پسندی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یسریٰ نے غصے سے بولتے ہوئے کھٹ سے دونوں ہاتھ اس کے سامنے باندھ دیئے ۔ اور کتنی ہی دیر بھائی اور بھابی کے الفاظ کی تکرار سا کت کھڑی دشمہ کے کانوں میں ہوتی رہتی تھی۔