SIZE
5 / 8

دن بے حد سست روی سے گزر رہے تھے اب نہ تو صبح شام دیوار پارسے عذرا خالہ وشمہ کو بلا کرکچھ مانگتی تھیں نہ ان کے بیٹے کا اونچے سروں میں میوزک بجتا تھا.......... کیونکہ عذرا خالہ اپنے نئے مکان میں شفٹ ہو گئی تھیں۔ کرائے کے اس مکان میں وہ لوگ سال بھر کے لیے آ ئے تھے۔ جانے سے ایک دن پہلے ان کے گھر ملنے آئیں' وشمہ کو خوب لپٹا لیٹا کر پیار کیا تھا۔

" جیتی رہو' اپنے گھر آ باد رہو۔۔۔۔۔ ایسی بخت آور بیٹی نصیب والوں کو ہی ملتی ہے' مجال ہے جو کبھی مجھے کسی چیز سے انکار کیا' بلا تکلف' بلا تردد میں ہر چیز مانگ لیتی تھی تو صرف اس یقین کے ساتھ کہ مجھے انکار نہیں ہو گا ' ایسی فرشتہ صفت ' بچی جہاں بستی ہو' اس گھر پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔" خالہ عذرا کے لفظ لفظ سے محبت ٹپک رہی تھی۔ مگر یسری کو خالہ عذرا کا یہ التفات ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔

" ہونہہ۔۔۔۔۔۔ بھائی بے چارے کی کمائی ادھر ادھر لٹا کر نیک نامی کمائی جا رہی ہے۔ ذرا بنو ا گلے گھر جا کر میاں کی آمدنی دونوں ہاتھوں سے اڑائیں تو اٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔" خالہ عذرا کے جانے کے بعد یسریٰ نے با آواز بلند اپنی کھولن نکالی تھی۔

صرف عذرا پہ ہی کیا موقوف ' پورا محلہ ہی وشمہ کو دل و جان سے چاہتا تھا'

کسی کی پیاری بیٹی تو کسی لاڈلی بہن' مرحوم والدین کی نیک نامی بھی خوب کام آتی' اوپر سے اپنے گن۔

" وشمہ بیٹا تو جنتی ہے' اتنا نیک اور ہمدرد دل پایا ہے کہ حد نہیں' مجال ہے جو ماں کی طرح کسی کو اپنے دروازے سے خالی ہاتھ لوٹایا ہو۔ ارے اس گھر پر رحمتیں اسی کی وجہ سے ہیں۔" کسی شادی بیاہ ختم قرآن' سالگرہ یا کسی اور نوعیت کے فنکشنز میں ایک ساتھ جمع ہمسایوں سے اسے اس قسم کے ہی جملے سننے کو ملتے تھے' بڑے پیار محبت سے اسے گلے لگایا جاتا تھا' محفل میں امتیازی جگہ دی جاتی تھی' کیا چھوٹے کیا بڑے' سب اس کے دلدادہ تھے ایسے میں یسریٰ کا غصے اور کھولن سے برا حال ہوتا۔ گھر کی مالک وہ تھی اورساری تعریف وستائش ساری کیا ساری وشمہ کے حصے میں آرہی تھی۔ ناانصافی ہی نا انصافی تھی۔ ایک تو کمائی اس کے شوہرکی ' اوپر سے کنجوس' تنگ دل اور بد مزاج بھی وہ مشہور تھی۔ یسریٰ کے خیال میں وشمہ کی مہمان نوازی اور دریا دلی' ہی اس کی شہرت خراب کرنے کی ذمہ دار تھی۔ اس لیے ہر گزرتے دن کے ساتھ یسریٰ کا رویہ وشمہ کے ساتھ خراب سے خراب تر ہوتا جا رہا تھا۔

" زوہیب بیٹا ذرا مارکیٹ سے کھیرا تو لا دو........ سلاد بنانا ہے تمہیں تو معلوم ہے تمہارے ابو سلاد کے بغیر کھانا نہیں کھاتے۔" عذرا بیگم کچن سے نکل کر لاؤنج میں آ گئیں۔ جہاں زوہیب ریموٹ ہاتھ میں لیے چینل سرچنگ میں مصروف تھا۔

" کمال ہے امی' اب کھیرا لینے کے لیے اتنی دور بازار جاؤں۔" زوہیب نے کوفت سے انہیں دیکھا۔

" جانا تو پڑے گا بیٹا ' اب یہ پرانا محلہ تو نہیں کہ کوئی چیز کم ہونے پہ دیوار پار سے مانگ کر کام چلاؤں۔ کتنی پیاری بچی ہے وشمہ' میری ایک پکار پر دوڑی چلی آتی تھی اور چیزیں بڑی اپنائیت سے تھما دیتی تھی۔ نمک' مرچ' سبزی' تیل۔۔۔۔۔ قینچی تک مانگی تو لڑکی نے ہنسی خوشی تھما دی۔" عذرا بیگم کا لہجہ آج بھی وشمہ کے لیے محبت سے معمور تھا۔

" ہاں وہ آپ کی ہمدرد کرو اور نیک دل ہمسائی.............. بہت باتیں سنتی تھی اپنی بھابی سے۔ عذرا بیگم کی بات پہ زوہیب بھی کچھ یاد کرتے ہوئے دلچسپی سے بولا' کبھی فرصت کے لمحوں میں دیوار کے ساتھ لان میں کرسی رکھ کر وہ بیٹھتا تو دیوار پار سے آ نے والی آوازیں اس کی دلچسسپی و توجہ خود بخود کھینچ لیتی تھیں' یسریٰ کا وشمہ کی کسی نہ کسی بات پر کھنچائی کرنا ' وشمہ کی وضاحتیں' محلے داروں کی آمدورفت' کسی نہ کسی کا کچھ مانگنا، محلے داروں کو نوازنے پر یسریٰ وشمہ کو جب سناتی تو ایسے میں زوہیب کے دل میں وشمہ کے لیے فطری ہمدردی پیدا ہو جاتی۔

" بے چاری کو دوسروں کی خاطر اتنی باتیں سننا پڑتی ہیں۔" عذرا بیگم سے وہ اکثر و بیشتر وشمہ کی تعریف سنتا رہتا تھا۔ اس کا سگھڑاپا' سادگی' خوب صورتی اور ہر کس و ناکس کے کام آنا۔۔۔۔۔

یسریٰ کی تند مزاجی' کنجوسی اور تھڑدلی' بس دیکھا نہیں تھا ورنہ تو ہمسایوں کے نام سے لے کر عادات تک سے بخوبی واقف ہو چکا تھا۔