اور ادھر نسیم فاطمہ۔۔۔۔۔ جو خدا ترسی' دریا دلی اور حسن سلوک میں اپنے شوہر سے بھی دو ہاتھ آگے تھیں' روز مرہ برتنے کی چیزوں سے لے کر سلائی مشین جیسی چیز بھی کوئی عاریتا مانگنے آتا تو بلا تردد حوالے کردیتیں۔ محلے میں رات کے کسی بھی پہر کسی بچے کے پیٹ میں مروڑ اٹھتا تو مروڑ کی دوا یقینی طور پر نسیم فاطمہ سے مل جاتی تھی۔ ماسی بختاور کی بہو' نویں مہینے کی حاملہ ہے' گھر بھر کے کپڑے ہاتھ سے دھوتے دھوتے اس کی کمر ٹوٹنے لگتی تو نسیم فاطمہ اسے مشورہ دیتی کہ واشنگ مشین اٹھا کر لے جانا تو ممکن نہیں تھا ' ہاں اپنا گٹھڑ لے کر یہاں آ جاؤ اور یوں واشنگ مشین میں آرام سے سارے کپڑے دھل جاتے۔ رات کے آخری پہر رشید درزی کے ہاں بچہ جم لیتا تو نومولود کو شہد چٹانے کے لیے قدم خودبخود رحمت الہی کے دروازے پرآ رکتے تھے۔ ہر کسی کے کام آنا ان میاں بیوی کا شیوہ تھا۔ بلا تفریق' بلاغرض ضرورتیں پوری کرنا' ان کے گھر کی شان تھی۔
بیٹھک کا ایک دروازو گھر کے صحن میں کھلتا تھا' جب بھی کوئی مہمان اتا تو رحمت الہیٰ گھر کی سمت والے دروازے کو کنڈی لگا لیتے اور ادھر نسیم فاطمہ چولہے پر چائے کا پانی چڑھا دیتیں' پھر چائے کے ساتھ دیگر لوازمات ٹرے میں سجا کر وشمہ کے ہاتھ بیٹھک میں بھجواتیں۔
" ابا۔۔۔۔۔۔ چائے تیار ہے۔" ننھی وشمہ کی آواز سن کر ابا دھیرے سے دروازہ کھول کر ٹرے اس کے ہاتھ سے لے لیتے۔
اسے ستمبر کی وہ ڈھلتی شام اچھی طرح یاد تھی جب اماں کی ایک سہیلی خالہ پروین کافی دور سے ان سے ملنے آئیں۔ ساتھ میں سات سالہ ان کی بیٹی بھی تھی۔
وشمہ کی ہم عمر' دن بھر ساتھ میں کھیلتے وقت سبرینہ کو وشمہ کی سائیکل بہت پسند آ گئی تھی' جس پر سارا دن دونوں نے باری باری سواری کی تھی۔ صورت حال گھمبیر تھی جب سبرینہ سائیکل کو ساتھ لے جانے پر مصر تھی
اور وشمہ کسی صورت سائیکل نظروں سے اوجھل نہ ہونے دینا چاہتی تھی' خالہ پروین نے بیٹی کو بہتیرا سمجھایا مگر بے سود ' سبرینہ کا دل بائیسکل پر بری طرح آچکا تھا۔
" اچھا ٹھیک ہے بیٹا' آپ سائیکل لے جاؤ' ہم وشمہ کو اور سائیکل لا دیں گے۔" نسیم فاطمہ نے کمال شفقت سے سائیکل سبرینہ کو تھما دی۔ بچی کا رونا' مچلنا ان سے دیکھا نہیں جا رہا تھا۔
”اماں۔۔۔۔۔ آپ نے میری سائیکل سبرینہ کو کیوں دے دی' آپ کو پتہ بھی ہے مجھے یہ سائیکل بہت پسند ہے' راحیل بھیا لاہور سے میرے لیے لائے تھے۔‘‘ بولتے ہوۓ وشمہ کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے تھے۔
" میری گڑیا۔۔۔۔۔ تمہارے پاس کھیلنے کو اور بھی بہت سی چیزیں ہیں ' تمہیں اور سائیکل لا دیں گے تمہارے ابا' کسی غریب کی بچی کو مایوس کرنا اچھی بات تو نہیں تھی۔" اماں نے محبت سے بولتے ہوئے اسے بازوؤں میں بھر لیا۔
" مگرنئی سائیکل اس جیسی تو نہ ہوگی' وہ تو لاہور سے بھیا خاص طور پر میرے لیے لائے تھے۔" وہ بھیگی آواز میں نروٹھے پن سے بولی تھی۔ سائیکل چھن جانے کا غم اسے ٹھیک طرح سے کھانے اور پڑھنے بھی نہیں دے رہا تھا۔
" دیکھو وشمه ! الله تعالی نے ہمیں بہت ساری نعمتیں دے رکھی ہیں۔ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان نعمتوں میں ہمیں ان لوگوں کو بھی شامل کرنا چاہیے جن کے پاس کچھ کمی یا تنگی ہو۔۔۔۔۔ تمہاری پروین خالہ بے حد غریب ہیں ' ان کے شوہر کی ٹانگ ایک حادثے میں ٹوٹ گئی ہے' گھر میں پیٹ بھر کر کھانے کو کچھ نہیں ' وہ میرے پاس اس لیے آئی تھیں کہ تمہارے ابا سے کہہ کر شہر کے کسی مخیر شخص سے ماہانہ وظیفہ لگوا دوں۔ سوچو تمہارے پاس کتنا کچھ ہے' اچھا کھانا' اچھے کپڑے ' سب سے بڑھ کر صحت مند کمانے والا ابا ایسے میں اگر ایک سائیکل چلی بھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے' ہاں اس کے بدلے میں اللہ تعالی خوش ہو کر ہمیں بہت کچھ دے دیتا ہے' اسے اپنے فیاض بندے بہت پسند ہیں' وہ اپنے مہربان بندوں پر حد سے زیادہ مہربان ہے' اسے کنجوس' لالچی' بخیل اور چھوٹے دل کے لوگ بہت ناپسند ہیں۔ اسے تو وہ لوگ پسند ہیں جو اس کے بندوں کے کام آئیں' اس کی مخلوق کی حاجت پوری کریں' اس کا درد بانٹیں ۔۔۔۔۔ پھر کیوں نہ ہم اللہ کے پسندیدہ بندے بن جا ئیں 'صرف تھوڑی سی چیزیں دے کر۔" رات کو چار پائی پر اماں کے برابر لیٹی' وہ خاموشی سے ان کی باتیں سن رہی تھی۔ سلکی بالوں میں سرسراتی ان کی انگلیاں بے حد سکون دے رہی تھیں اور سب سے بڑھ کر ان کا نرم اور دھیما محبت بھرا لہجہ ۔ ایک ایک لفظ اس کی سماعتوں میں رس گھولتا ہوا اس کے ننھے سے دل پر نقش ہورہا تھا۔
پورے ایک ماہ بعد میٹھے پانی کی لائن کھلی تھی۔ گھر میں پانی کی سخت تنگی تھی۔ گھر میں کھارے پانی کی فراہمی بورنگ سسٹم سے جاری تھی مگر لوگ میٹھے پانی کے لیے بوند بوند ترس رہے تھے' پانی کی اس تنگی کو بھی یسریٰ بھابی نے وشمہ کے سر پر تھوپ دیا تھا۔