SIZE
2 / 8

" دیکھا نہ تھا کبھی ہم نے یہ سماں ............ ایسا نشہ تیرے پیار نے دیا... کھو گئے سپنوں میں ہم ۔" دیوار پار سے اونچے سروں میں میوزک بج رہا تھا۔

" اوہ لگتا ہے خالہ عذرا کے لاڈلے فرزند گھر پر براجمان ہیں۔" سرخ اینٹوں کے فرش پر برش پھیرتے ہوئے وشمہ نے دل میں سوچا۔ خاله عذرا کا اکلوتا بیٹا بینک میں کسی اچھی پوسٹ پر تھا' موسیقی کا دلدادہ اور کھ نے پینے کا شوقین' ایک سال کی ہمسائیگی میں وشمہ اتنا تو جان چکی تھی۔

" وشمہ باجی' امی کہہ رہی ہیں واٹر پائپ دے دیں پودوں کو پانی دینا ہے۔" سامنے والوں کا شیراز اس کے سامنے کھڑا عرض پیش کررہا تھا۔

" ارے چندا' میں لے آتی ہوں۔" پیار سے بولتے ہوۓ وشمہ نے برش رکھ کر اسٹور کا رخ کرنا چاہا مگر یسریٰ کی کڑک دار آواز نے رک جانے پر مجبور کردیا۔ جو بالٹی سے دھلے کپڑے نکال کر زور زور سے جھٹکتی تار پر ڈال رہی تھیں۔

" کوئی پائپ وائپ نہیں ہے ہمارے پاس۔۔۔۔۔ پچھلی بار بھی تم لوگ لے گئے تھے جگہ جگہ سے کٹ لگ گئے ہیں پائپ پہ' جب دوسروں کی چیز احتیاط سے استعمال نہیں کر سکتے تو مانگنے کیوں آ تے ہو۔۔۔۔ چلو بھاگو یہاں سے۔“ غصے سے بولتے ہوئے شیراز کو ڈ پٹ کر باہر کا رخ دکھایا۔

" اورتم ...........اپنی مہربانیوں کا دائرہ اپنے تک محدود رکھا کرو۔ ہر وقت بی بی دریا دل نہ بنا کرو............جگہ جگ ٹیپ لگائی تھی پھر پائپ کچھ گزارے لائق ہوا۔ چلی ہیں پھر سے سخاوت کے دریا بہانے۔“ اب کے توپوں کا رخ وشمہ کی جانب ہوا۔

" بھابی پائپ پہ کٹ یاسمین آنٹی نے نہیں لگاۓ تھے' انہیں کیوں انکار کر رہی ہیں' وہ تو عمران بھائی کا جب مکان بن رہا تھا' وہاں سے پائپ خراب ہو کر آیا تھا۔" اس نے یسریٰ کو کچھ یاد دلانے کی کوشش کی۔

" خراب کہاں' وہاں سے تو چھوٹا ہو کر آیا تھا۔ بے ایمان لوگوں نے آدھا ٹکڑا کاٹ کر پاس رکھ لیا تھا۔‘‘ یسریٰ جل کر بولی۔ عمران بھائی بھی انہی کی گلی

رہائش پذیر تھے' اپنے مکان کی تعمیر میں راحیل بھائی سے پائپ مانگ کر لے گئے تھے جو انہوں نے یسریٰ کی ہزار ہا تاکید سننے کے بعد عمران کے حوالے کیا تھا۔

" کیا بھائی۔۔۔۔۔ کیا بہن۔۔۔۔۔ دونوں گھر کے ضیاع کے درپے ہیں۔ بات شوہر کی تھی' یسریٰ غصے سے بڑبڑاتے ہوئے واش روم میں گھس گئی۔

وشمہ نے گلی میں جھانک کر دیکھا تو سامنے شیراز دوسرے نوعمر لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا۔ اس نے دھیمی آواز میں شیراز کو بلایا۔

" شیری............ ادھر آؤ۔ ‘‘ پھر رول کیا ہوا پائپ اس کے حوالے کردیا۔ دروازہ بند کر کے سکون کی سانس لی۔ کوئی اس کے گھر مانگنے آتا اور پھر خالی ہاتھ واپس جاتا' بھلا ایسی صورت میں وہ سکون بھری سانس لے سکتی تھی کیا؟

وہ رحمت الہیٰ اور نسیم فاطمہ کی اکلوتی لاڈلی بیٹی تھی' جو اپنی سخاوت' ہمدردی اور فیاض فطرت کے باعث محلے بھر میں عزت واحترام سے دیکھے جاتے تھے۔ مرحوم رحمت الہیٰ حد درجہ مہمان نواز اور فراغ دل انسان تھے۔ اپنی زندگی میں کوئی دن ایسا نہ گزرا کہ ان کی بیٹھک میں کسی مہمان کی ضیافت نہ کی گئی ہو۔ دوست ' محلے دار' اپنے پرائے سبھی ان کی بیٹھک میں جمع ہوتے' چائے کا دور چلتا اور تازہ ترین صورت حال پر گرما گرم بحث چلتی' کھانے کا وقت ہوتا تو دسترخوان بچھ جاتا' ورنہ تو چاۓ' لسی' ستو اور سکنجبین کا دور چلتا ہی رہتا تھا۔ نفاست اور سلیقے سے سجی بیٹھک میں چلتا بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی بھی ہزار ہا دلچسپیاں اپنے اندر سموئے ہوئے رہتا تھا۔