SIZE
1 / 8

" وشمہ... وشمہ۔۔۔۔ ارے وشمہ بیٹا۔‘‘ دیوار پار سے اس کے نام کی تواتر سے پکارآ رہی تھی۔ " بیٹا سنتی ہو؟

" عذرا خالہ مجھے بلا رہی ہیں' میں دیکھتی ہوں ذرا۔“ نمکین لسی کا بڑا سا گھونٹ بھرتے ہوئے دشمہ نے کہا پھر دستر خوان سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

" بیٹھ جاؤ آرام سے کھانا کھاؤ......... کوئی ضرورت نہیں جانے کی' اس عورت کو ہر وقت کچھ نہ کچھ مانگنے کی حاجت رہتی ہے۔" اسے کھانے سے ہاتھ کھینچتا دیکھ کر یسریٰ بھابی نے ناگواری سے کہا۔

" بھابی۔۔۔۔ ہوسکتا ہے واقعی خالہ عذرا کو کسی چیز کی ضرورت ہو یا کوئی بات کہنی ہو' مجھے سن تو لینا چاہیے۔ " نرمی سے کہتے ہوئے دشمہ باہر آ گئی۔

اندر روم کولر کے یخ نیم تاریک ماحول سے نکل کر ایک دم چلچلاتی تیز دھوپ میں آنے سے اس کی آنکھوں کے سامنے لمحہ بھر کو اندھیرا چھایا تھا۔ عذرا خالہ دیوار کے دوسری طرف سے سر نکالے ان کی طرف بازو لٹکائے منتظر کھڑی تھیں۔ اسے دیکھ کر پیار سے بولیں۔

" وشمہ بیٹا' ذرا ایک دو پیازتو دینا' بھی زوہیب دفتر سے واپس لوٹا ہے' کھانا پکانا ہے اس کے لیے۔" وہ سر ہلا کر کچن میں آ گئی۔ ٹوکری سے تین چار بڑی بڑی پیاز اٹھائیں اور سکون سے خالہ عذرا کے دونوں ہاتھوں میں دے دی۔

" اللہ بھلا کرے تمہارا' نصیب اچھے ہوں تمہارے خالہ جان سودا لائیں گے تو میں تمہاری پیاز واپس کر دوں۔" خالہ عذرا کے لہجے میں عاجزی اور پیار بدرجااتم موجود تھے۔

" کوئی بات نہیں خالہ۔‘‘ آرام سے کہتی وہ اندر آ گئی۔ دھوپ اس کے چہرے کو جلانے لگی تھی۔

" کیا مانگ رہی تھیں تمہاری عذرا خالہ خیر سے۔" چاول کی پلیٹ میں رائتہ نکالتے ہوۓ یسریٰ نے طنزیہ پوچھا۔

" پیاز کی ضرورت تھی' سالن پکانے کے لیے۔" سادگی سے کہتے ہوۓ اس نے اپنی بچی ہوئی روٹی ہاٹ پاٹ سے نکال کر کھانا شروع کردی۔

" زہر لگتی ہے مجھے یہ عورت ' ہر وقت دیکھو ہاتھ پھیلاۓ کھڑی رہتی ہے'

کبھی پیاز اور کبھی چینی۔۔۔۔۔۔ کچھ نہ کچھ کم پڑ جاتا ہے ان کے گھر میں ..... بندہ پوچھے افراد کتنے ہیں' میاں کی پینشن' بیٹے کی ہر ماہ تگڑی تنخواہ اور خود یہ' ٹوٹل تین افراد.........تم سے آسانی سے چیزیں بٹور لیتی ہے ورنہ گھر کی دیواریں تو دوسرے پڑوسیوں کے ساتھ بھی ملی ہوئی ہیں ادھر تو نہیں جھانکتی۔۔۔۔۔ پتہ ہے ناں انکار ہو جانا ہے۔ " چاول کی پلیٹ صاف کرتے ہوۓ یسریٰ سخت غصے سے بول رہی تھی۔

" اور واپس کب کریں گی پیاز' یہ تو بتایا ہوگا؟“ تیز نظروں سے اس کے جھکے سر کو دیکھتے ہوئے یسریٰ نے پھر پوچھا۔

" بھابی' تین چار پیاز کا کیا واپس کرنا۔۔۔۔۔" سادگی سے کہتے ہوئے وشمہ نے دستر خوان لپیٹنا شروع کردیا۔

" تین چار پیاز .............. صرف ایک وقت کے سالن کے لیے؟‘‘ بھابی یسریٰ حلق کے بل چیخیں' دل چاہا کہ زور دار تھپڑ وشمہ کے منہ پر مار کے باہر دھوپ میں کھڑا کردیں جس نے اپنی فیاض اور مہربان فطرت سے تنگ کر رکھا تھا۔