SIZE
4 / 19

زندگی تھی جو بچ گیا. مگر ٹانگوں کی بابت وہ کچھ آسانی سے کہ نہ سکتے تھے. انھوں نے ٹانگوں

سے بے شمار ایکس رے لئے اور ٹانگوں پر پلستر چڑھا دے. جب تک پلستر نہ اترتا کچھ نہیں

کہا جا سکتا تھا. آیا اسکی ٹانگیں پہلے کی طرح کام کر سکیں گی یا بیساکھیوں کا سہارا لینا

پڑے گا.

شرمیلی دن رات اویس کی پٹی سے لگی بیٹھی رہتی. رات رات بھر نمازیں پڑھ پڑھ کر اسکی

تندرستی کی دعائیں مانگتی. رو رو کر اسنے اپنی آنکھیں خراب کر لی تھیں.

ایک ماہ جب اسکے باکی زخم مندمل ہوگئے تو ڈاکٹروں نے اسکو گھر جانے کی اجازت دے دی.

اس صورت میں اسکی دونوں ٹانگوں پر پلستر چڑھا ہوا تھا. اور پلستر تین مہینے بعد کھولا

جانا تھا. گھر میں بھی شرمیلی ہر وقت اسکی تیمارداری میں لگی رہتی. اب اسکے سوا گھر

میں کون تھا. ہسپتال میں تو نرسیں ہاتھ بتاتی تھیں. مگر یہاں اسکو سب خود ہی کرنا پڑا.

اماں جان بھی دن کے وقت آجاتیں تھیں. مگر رات کو واپس اپنے گھر چلی جاتیں تھیں.

یہ ننھا سا فلیٹ اماں جان نے انکو کراے پر لے کر دیا تھا اور نہ اویس کی تنخواہ اتنی تھی کے

الگ گھر رکھ سکتا. اماں جان کا خیال تھا کے شادی کے بعد دولہا دلہن کو رشتہ داروں سے

الگ تھلگ رہنا چاہیے. اماں جان کو یہ بھی یقین تھا کے اویس کی ٹانگیں بلکل ٹھیک ہو جایئں

گی. اور ہمیشہ جاتے ہوے شرمیلی کو نصیحت کر کے جاتیں کے وہ جی جان سے اپنے

شوہر کی خدمت کری. اسی میں اسکی بہتری ہے.

یکایک زندگی کی شامیں بوجھل اور اداس گئیں. کچھ سمجھ آتا تھا کے وہ دونوں اتنی اداس شام اور لمبی رات کیسے

گزاریں. اویس خود بھی چارپائی پڑا پڑا تھک گیا تھا. مگر وہ تو اپنی مرضی سے کروٹ بھی بدل نہیں سکتا تھا.

کبھی کوئی کتاب پڑھنے لگتا، کبھی تصویریں دیکھنے لگتا اور کبھی شرمیلی بیٹھا کر لایعنی سوال پوچھنے لگتا.

شرمیلی کو کتابیں پڑھنے کا کوئی شوق نہیں تھا. سوئی سلائی سے بھی اکتا چکی تھی، اویس کو وہ بہت بکھری بکھری

لگنے لگی. وہ اپنے طور پر اپنی معزروی سے معذرت کرتا مگر وہ کیا کر سکتا تھا.