ایک روز جب اماں آئیں تو اس نے انھیں بہت لجاجت سے کہا کے وہ انکو ایک ٹی وی .دیں . کم از کم شام تو گزر جایا
.کرے گی. پہلے تو اماں بھڑکیں گھر میں کنجر خانہ انہیں بلکل پسند نہیں تھا. ٹی وی چل رہا ہو تو کسی کو گھر بار کا
ہوش نہیں رہتا. شام کو ہر شخص اپاہج بن کر بیٹھ جاتا ہے. اور شرمیلی کو تو کنوارے پن میں بھی ٹی وی دیکھنے کا شوق
نہیں تھا. کتنا اچھا ڈرامہ یا فلم چل رہی ہوتی سب بلانے آتے. مگر وہ اماں جان کے بستر میں گھسی بیٹھی رہتی.
اسے ان خرافات سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور جب ڈرامے میں لڑکے لڑکیوں سے بے حجابانہ گفتگو کرتے تو اسے پسینہ
آجاتا. اسنے کبھی کمرے سے گزرتے ہوے کچھ سین دیکھے تھے. اور جب اویس نے اپنی مجبوریاں بتائیں. اپنی بیماری کا
واسطہ دیا اور اماں جان کو سمجھیا کے شرمیلی اب شادی شدہ عورت ہے اور میری معیت میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھے گی
تو اماں مان گئیں. اور اگلے دن انکے ہاں ٹی وی سیٹ آگیا.
اویس کو یوں محسوس ہوا کے اسنے گھر میں ٹی وی سیٹ لگا کر بہت عقلمندی کی ہے. شام ہی سے دونوں پروگرام دیکھنے
کو تیار ہو جاتے، اور اویس کے بیڈ روم میں ہی ٹی وی رکھ دیا تھا. ویسے تو شرمیلی اسی کمرے میں سوتی تھی. مگر اسنے
اپنے لئے وہاں ایک الگ پلنگ ڈلوا لیا تھا. ایک ہفتے کے اندر اندر انہیں سارے پروگرام ازبر ہوگئے. سلسلہ وار پروگرام
کا وہ بری شدت سے انتظار کرتے. مزاحیہ پروگرام کے اوقات خصوصن یاد رکھتے. ذہنی آزمائشوں کے پروگرام میں
بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے. ایک دوسرے کے ساتھ شرطیں لگا کر سوالوں کے جواب دیتے اور تو اور شرمیلی انگریزی فلمیں
بھی بہت شوق سے دیکھنے لگی تھی. شروع شروع میں اسکو سمجھنے میں بہت دقت ہوتی تھی. مگر اویس جلدی سے اسے
فلم کا خاکہ بتا دیتا. یا کوئی مشکل سی سچویشن اتی تو فورن سمجھا دیتا. اس طرح اسے ساری فلم سمجھ آجاتی اور اب دماغ
لڑانے میں بھی مزہ انے لگا. وہ روکھی پھیکی ماتم میں ڈوبی شامیں سنوارنے لگیں. شور و غل سے، روشنیوں سے آج
بہت دن بعد اویس نے شرمیلی کو مسکراتے دیکھا تو اپنا غم بھول گیا.
جناب جلدی کھانا کھا لیں. پھر فلاں پروگرام شروع ہو جاتے گا پھر مجھے اٹھاے گا مت. میں آپکو سیک ڈان. پھر آرام سے بیٹھ
کر فلم دیکھیں گے.