مگر اماں جی کو اسکی اس بات پر بھی فخر تھا اور بہت غرور سے کہتیں، میری شرمیلی کو
تو یہ بھی پسند نہیں کے گھر میں مرد نوکر رکھے جائیں. چونکہ باورچی خانے میں
خانسامہ کام کرتا تھا. اسلئے وہ کبھی باورچی خانے میں نہیں جاتی تھی. گھر کی جھار پونچھ
کے لئے ایک بارہ سال کا لڑکا رکھا ہوا تھا وہ بھی شرمیلی کو کھٹکتا تھا. اسلئے اماں جان
نے ایک عورت کا بندوبست کر لیا تھا. ایسی خانہ نشین لڑکیاں آج کل نایاب تھیں.
اسلئے اماں جان اسے کسی لاپرواہ کے حوالے نہیں کرنا چاہتی تھیں. جب شرمیلی نے
میٹرک پاس کر لیا تو اماں جی نے ایک سال اسکو اپنے گھٹنے سے بٹھاے رکھا.
بتھیرا سبھووں نے کہا کے کالج میں تو بھیجو جب کوئی اچھا جوڑ ملے گا تو اٹھوا لینا.
مگر اماں جان اسکو کالج کی ہوا لگنے نہیں دینا چاہتی تھیں. بہت سوچ سمجھ کر اماں
نے اسے اویس کے حوالے کرنے کا فصیلہ کیا.
اویس رشتے میں اماں جان کا پوتا لگتا تھا. اسکے تعلیمی اخراجات سب اماں نے اٹھاے تھے.
اسکی ماں نے اسکے باپ کو طلاق دے دی تھی. اسلئے ماں نے کہی اور بیاہ رچا لیا تھا
اور باپ نے بھی دوسری شادی کر لی. تب رلتا کھلتا اماں جی کے کے سائے میں آگیا تھا.
اویس بی اماں جی کا چہیتا تھا. بی اے کرنے کے بعد وہ ایک دوائیوں کی کمپنی میں میڈیکل
ریپ میں آگیا تھا. بقول اماں جان کے بہت ہونہار بچہ تھا. اماں جان کے فیصلے کے آگے کسی
کو دم مرنے کی جرات نہیں تھی. سو بیاہ پکا ہوگیا.انہوں نے اویس کو بتا دیا کے شرمیلی ذرا
شرم و حیا والی بچی ہے تو اسکو زمانے کے ساتھ چلانے کی کوشش نہ کرے. ایسی لڑکیاں
بہت اچھی اور اطاعت شوار بیویاں ثابت ہوتی ہیں.
اویس کے لئے شرمیلی کے ارد گرد بنے شرم و حیا کے روایتی جال کو توڑنا ناممکن بن
گیا تھا. مگر وہ اس سے نفرت نہیں کرتا تھا جانتا تھا کے بچی ہے. بردبار بننے اور شعور
حاصل کرنے میں وقت لگے گا. رفتہ رفتہ جب ذہنی پختگی آجاتے گی تو وہ اپنی مرضی سے
ڈھال لے گا.
ابھی شادی کو صرف چھ ماہ ہوے کے عجب افتاد آپڑی. اویس کا سکوٹر تیز رفتار بس کی زد
میں اگیا. اویس شدید زخمی ہوئی یہی نہیں اسکی دونوں ٹانگیں بھی ٹوٹ گئیں.
چھوٹی سی شرمیلی................ اس حادثے سے حواس باختہ سی ہوگئی. ابھی تو وہ اپنے
اویس سے اچھی طرح گھل مل بھی نہ سکی تھی. جو جی میں باتیں تھیں وہ بے تکلفی سے کہ
بھی نہ پائی تھی کے وہ کے وہ منہ بند کر کے چارپائی پر آرہا.