ہر بار وہ ایک گہری سانس لے کر خود کو کمپوز کرتی اور اپنی ساس جنہیں وہ ارسل کی دیکھا دیکھی امی بلانے لگی تھی کی ہر کڑوی گولی صحت بخش غذا کی طرح اندر اتار لیتی .
ایسی کتنی ہی کڑواہٹ بھری سانسیں اس کے وجود کے پنجرے میں بے بسی سے اتر کر اس کی روح کو نیلا کرتی جا رہی تھیں . لیکن اس کے گندمی چہرے پر یہ نیلاہٹ ایک ذرا سی زردی تک نہ مل سکی تھی .
وہ بشاش رہتی تھی ، رہنا چاہتی تھی اور ویسا ہی بشاش گھر کا ماحول رکھنا چاہتی تھی . ایک حد تک اس مقصد میں کامیاب بھی تھی لیکن آخر کب تک ....کبھی ، کبھی جب گھٹن حد سے سوا ہو جاتی تب کوئی ایک جملہ یا کوئی ادھوری سی معنی خیز بات اس کے لبوں سے دھیرے سے نکل کر امی کی سماعتوں تک کا سفر کرتی .... اس کے بعد ....اس کے بعد اس کی بد بختی اس کے پیچھے پورے تین دن کا سفر کرتی اور اس کے دل میں ڈھیر لگتے ہلکے پھلکے غموں میں ایک اور غم کا اضافہ ہو جاتا ... اس دن بھی یہی ہوا تھا . اتوار میں دو دن باقی تھے ، جب امی نے آندھی طوفان والی بات کی . تب بے حد برداشت کے باوجود اس کے منہ سے نکل گیا .
" چلو خیر ہے ، میرا نمبر تو پھر بھی پندرہ دن کے بعد آتا ہے ناں....." یہ کتنی ادھوری اور کتنی مکمل بات تھی .... اس کا اندازہ اسے تھا . اور یہ کتنی سادہ اور کتنی معنی خیز بات تھی . اس کا اندازہ اسے تب ہوا جب اس کے غوثیہ کا چہرہ متغیر ہوتے دیکھا .
غوثیہ چھوٹی نند تھی جو ہر جمعے کو اپنے میکے روکنے آتی اور ہفتے کی شب اسکا شوہر اسے لے جانے کے لئے آتا تو اس کے اہتمام کے کھانے پکانے کے چکر میں اریبہ کی اپنی کمر ٹوٹ جاتی .
غوثیہ اور اس کا شوہر خود تو خوش باش گھر لوٹتے مگر اس کا ویک اینڈ نابود ہو جاتا .
" کیا مطلب ہے تمہارا اس بات سے ....کیا کہنا چاہتی ہو کھل کر کہو ناں....ارے اپنے باپ کے گھر آتی ہے غوثیہ اور اگر تمہیں تکلیف ہوتی ہے تو تم دفع ہو جو ." وہ ایسی ہی تھیں .... جب حلال چڑھتا تو یوں ہو جاتیں جیسے زندگی بھر دوبارہ اسکی شکل نہیں دیکھیں گی اور ایک وہ خود تھی .
تین دن فقط .... تین دن کی خواری کے بعد مٹی پلید کی گھڑی آ جاتی .... پہلے دن وہ دل میں مصمم ارادہ کرتی .
" اب ان کی شکل بھی نہیں دیکھوں گی ، آنے دو ارسل کو ."
ارسل رات کو اتنی دیر سے گھر آتا کہ اس کا غصہ دماغ تک چڑھ کے تھک ہار کے اتر کر سو بھی جاتا .... اور ہتھیلیوں پر مکے مارتے مارتے وہ خود بھی ڈھیلی ہو جاتی .
دوسرے دن ، دانتوں میں لب کے کنارے دباۓ اجنبیوں کی طرح چھوٹی سی رسوئی میں ساس اور نند ( جس کا میکے میں معرکہ آرائی کے بعد بھی واپسی کا کوئی پروگرام کبھی مقررہ وقت سے پہلے نہ بنتا تھا ) کے دائیں، بائیں ، آگے پیچھے سے ہو کر ، بچ کر کھانا پکانے اور دوسرے کام کرنے میں نکلتا اور یہی دوسرا دن ، وہ دن ہوتا جب اس سے ناراضی کی صورت میں امی اس کے بناۓ کھانوں کے بجاۓ پتلی دال اپنے ہاتھوں سے بنا کر روٹی ملتیں اور رقت آمیز انداز میں جانے کیا ، کیا بولتے ہوئے کھاتی جاتیں .... وہ چور نظروں سے دیکھتی رہتی .