دوسرے دن کی دوپہر ، رات اور پھر تیسرے دن کی صبح ناشتے میں بھی ....وہی دال .... اور بس .... اس کا دل پسیج جاتا .
الجھی لٹوں کو کانوں کے پیچھے اڑستی، انگلیاں چٹخاتی، تھوک نگلتی وہ پہنچ جاتی موقع پا کر ان کے کمرے میں. پھر کلائمکس آ جاتا ... معافی ، تلافی ، نخرے ، بہانے ، آنسو ،ہچکیاں ، معذرت ....
وہ خود ہی نہیں اس کا دل بھی رو پڑتا .... یہ کلائمکس کسی ڈرامے کا کلائمکس نہیں تھا جو آیا گزر گیا اور دوسرا سین شروع....
یہ اختتام تو امی جان کا من پسند سین تھا. جسے ری ٹیک کرواتے کرواتے نہ وہ تھکتی تھیں نہ اریبہ انھیں مایوس ہونے دیتی تھی . کڑی سے کڑی ناراضی میں بھی تیسرے دن بھی اریبہ موم کی بنی بتی کی طرح پگھل کر بہہ نکلتی اور اس کے وجود سے اٹھتی خفت اور عزت نفس کی سلگتی چتا پر امی کی آنا اپنے ہاتھ سینکتی قہقہے لگاتی اور ناچ ناچ کر جشن مناتی ....
مشکل یہ نہیں ہوتی کہ لوگ ہماری کمزوریوں سے واقف ہوتے ہیں اور وقت اور موقع پر ان کو نشانہ بنا کر ہم سے کھیلتے ہیں . اصل مشکل یہ ہوتی ہے کہ اپنی کمزوریوں سے ہم خود واقف ہو کر بھی انھیں ہم دور نہیں کر سکتے اور ایک دل .... ایک حساس دل بھی انسان کے لئے ایک دھڑکتی ہوئی مشکل ہی تو ہے .
اس کی بھی یہی کمزوری ٹھہری .
ہمیشہ والے واقعات پورے تسلسل اور ترتیب سے دہرائے گئے . امی نے اس بار مشائم پر اپنی دادی والی مخصوص محبت نچھاور کرتے ہوئے اسے اپنے پاس روکنے کی بات کر کے ایک نیا پٹاخہ چھوڑ دیا تھا . اریبہ کم و بیش دو فٹ تو اچھل ہی گئی .
" تین سال کا بچہ .... میں نہیں چھوڑ کر جا سکتی ." کچھ معاملات میں اسٹریٹ فارورڈ ہونا پڑتا ہے . اور پھر اس کا نتیجہ بھی اچھے سے بھگتنا پڑتا ہے ....
اس نے بھی بھگتا . نتیجتا جب وہ گھر سے نکلی تو امی ناراض تھیں لیکن وہ خود اصل بات سے نا واقف تھی .
وہ ناراض ضرور تھیں لیکن اس سے زیادہ حیران تھیں .
بیٹے کی شادی کے بعد ساڑھے چار ، پانچ سالوں میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ ان کی بہو تیسرے دن انھیں منانے کی بجائے یونہی چھوڑ کر میکے نکل پڑی تھی .
ان کا دل بلاوجہ ہول کر رہ گیا . حالانکہ گھر سے نکلتے وقت اریبہ نے مخصوص لگاوٹ بھرے انداز میں سلام بھی کیا تھا لیکن وہ اپنی پریشانی میں ہی اس قدر غلطاں تھیں کہ جواب نہ دے سکیں .
ریشم سے ملائم دکھ نے سرسراتے ہوئے اس کے اعصاب کو اپنی پھسلواں چھاؤں تلے ڈھانپ دیا .
اس نے گہری سانس بھر کر ارد گرد نگاہ دوڑائی . رکشا اسکی امی کے علاقے میں داخل ہو چکا تھا . جانے پہچانے بچپن کی گلیاں، موڑ، چوراہے ، دکانیں بھی اسکی بجھتی ہوئی طبیعت کو شاد نہ کر سکے .