حدیثہ نے دیر تک کھڑے کھڑے مہتابی کو گھورا اور مہتابی نظریں چُرا کر رہ گئی۔ " تم سے کتنی بار کہا ہے دینار کو ان منحوس گاؤں والوں کی باتیں نہ سنایا کرو۔ کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ میں گھوڑے پراپنا سفر طے کرتی ہوں اوراپنی زمینوں کے مقدمے کو بھگت رہی ہوں اور مجھے ایک چابک کی ضرورت بھی درپیش ہے۔"
مہتابی کاموش رہی اور اٹھ کر اس کے غسل کے لیے پانی گرم کرنے لگی۔
" میں یہ اور برداشت نہیں کر سکتی۔" دینار نے آہستگی سے کہا۔
چمڑے کے سخت کھردرے جوتے غصے سے چہل قدمی کرتے کرتے رک گئے۔
" آپ کو سادہ لوح گاؤں والوں کو ایسا نہیں سمجھنا چاہیے۔ آپ انسانوں سے اتنی نفرت کیوں کرتی ہیں۔"
حدیثہ نے نخوت سے اپنی اندھی بیٹی کو دیکھا جو ہر بار یہی سوال نئے انداز سے کرتی تھی۔
" ایک عورت جو اپنے گھوڑے کو ایڑ لگاتی ہے اور شام ڈھلے گھر آتی ہے' اسے بتانے کی ضرورت نہیں کہ اسے کس سے نفرت کرنی چاہیے اور کس سے محبت۔ وہ دنیا کے کسی بھی عالم سے زیادہ جانتی ہے۔ تمہیں میرے علم کی قدر کرنی چاہیے اور تقلید بھی۔"
" میں نور و گل کی شادی میں جانا چاہتی ہوں۔ " اسے حدیثہ خانم کے علم کی قدر تھی نہ اسے تقلید کرنی تھی۔
' تم ضرور جانا اگر نورو گل تمہیں بلانے کی جرات کر پائی تو۔"
" ٹھیک ہے۔ آپ مجھ پر ایسے طنز کر سکتی ہیں لیکن ایسا آپ کی وجہ سے ہی ہے۔ وہ سب آپ کی وجہ سے ہی مجھ سے دور رہتے ہیں۔"
" انہیں میری نفرت پر یقین ہے تو انہیں تمہاری محبت پر بھی اعتقاد ہونا چاہیے۔"
" آپ جانتی ہیں کہ آپ کی زمینوں میں کب بیج ڈالا جائے گا' کب کٹائی ہوگی' کب شہر لے جایا جائے گا، کس کی زمین پر کیسے قبضہ ہو گا' قبضے کا مقدمہ کیسے جیتا جائے گا' لیکن یہ نہیں کہ میں کیا چاہتی ہوں۔"
" میری اندھی بیٹی جو مہتابی کے ہاتھ چومتی ہے اور پہاڑوں سے ٹکرا کر آتی ہواؤں کے پیغام سنتی ہے۔ وہ کیا چاہتی ہے کہ میں بھی یہی سب کروں؟"
" میں ہواؤں سے باتیں کرتی ہوں' مہتابی کے ہاتھ کو آنکھوں سے لگاتی ہوں۔ کیونکہ میں ایسا کرنے میں خوشی محسوس کرتی ہوں۔"