" لوگ نہ ہواؤں سے باتیں کرتے ہیں، نہ ہواؤں سے باتیں اخذ کرتے ہیں اور نہ ہی عقیدت و محبت کو آنکھوں تک لے جا کر احترام سے نوازتے ہیں۔"
"میں آپ کی طرح دلائل نہیں دے سکتی۔ میں بس اتنا جانتی ہوں کہ میں شادی کے گیت گانا چاہتی ہوں۔ مجھے زلفیہ خالہ کے اس تنور کی قربت چاہیے جہاں پاستل گاؤں میں آنے والے مہمان سب سے پہلے تناول کرنا چاہتے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ معرفت خالہ میری انگلی پکڑیں اور مجھے جنت کے پھول کاڑھنا سکھائیں کہ میں اپنے لیے اور آپ کے لیے ایک ایسا کُرتا کاڑھ لوں جو ہمیں تنہائی کا احساس نہ دلاۓ ۔ آپ کیوں نہیں سمجھتیں کہ میرا دل مچلا جاتا ہے کہ عزیزه خالہ کی بیٹھک میں گاؤں بھر کی لڑکیوں کے ساتھ بیٹھ کرعظیم ڈاکو بسام کی شجاعت کے قصے سنوں اور یہ جان پاؤں کہ کیسے بسام نے ایک بوڑھے ضعیف کو اپنے کندھوں پر لاد کر دریا پار کروایا تھا۔ کیسے وہ سمرقند کے سپاہیوں میں بھیس بدل کر گھس گیا تھا۔ میں اسے کبھی نہیں دیکھی پاؤں گی جیسا کہ میں کسی کو بھی کبھی دیکھ نہیں پاؤں گی لیکن اگر میں اس بیٹھک میں موجود ہوں گی تو میں بسام کو اتنا جان لوں گی کہ مجھے اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ میں اس گھر کی گرمائش سے تنگ آ گئی ہوں مجھے کچھ تو سرد اور تازہ ہوائیں اکٹھی کرنے دیں۔۔۔"
کسی مغموم مغنیہ کی طرح وہ نغمہ سرا تھی جبکہ نیم گرم پانی میں پیر ڈبوۓ بیٹھی حدیثہ نشست سے سر ٹکاۓ اونگھ رہی تھی۔ اس سے باخبر کہ ترسک گاؤں کے واحد قہوہ خانے میں چارمرد یٹھے اسے گالی دے رہے ہوں گے۔
يوسف' سلیمان' حافظ ' شہتاب' وہ ان کے ساتھ مقدمہ لڑ رہی ہے۔
اور حاتم بھی۔ وہ قہوہ خانہ کا مالک ہے جس کے ساتھ اس کا کوئی مقدمہ نہیں اور رائد جو قہوہ کی پیالیاں پتھر کی سلوں پر رکھتا ہے' اور رائد کی ماں زلفیه خانم جو تنور میں ایسے پاستل لگاتی ہے جیسے مالی باغ میں پھول لگاتا ہے۔ حاجت جو زلفیہ کا چچا ہے جسے ہر سال حديثه سے قرض کی ضرورت رہتی ہے۔ زریاب جو حاجت کا ہمسایہ اور ہم خیال ہے اور اس کی نیک سیرت بیوی قمری جو حدیثہ کو نیکی کی نیت سے بد دعائیں دیتی ہے۔ اس نیک سیرت بیوی کا بھائی جو چمڑے کے جوتے بناتا ہے اور انہیں مہنگے داموں گاؤں گاؤں بیچتا ہے اور گھر گهر' گاؤں گاؤں' بات بے بات جوتے بیچنے والا اور خریدنے والے اسے کوسنے دیتے ہیں اور اس پر خدا کی لعنتیں بھیجتے ہیں۔
گھر گھر' گاؤں گاؤں' موسموں کی طرح وہ اسے بدل بدل کر کوسنے اور بددعائیں دیتے ہیں۔