SIZE
2 / 19

" حدیثہ خانم! وہ ایسا ضرور کریں گی۔ خدا کی محبت پر مجھے اعتبار ہے لیکن پھر بھی حدیثہ خانم ہی میری ماں ہوتیں' کیا یہ ضروری تھا ؟" وہ دھاگے کو اپنی انگی پر لپیٹنے لگی جس کے رنگ سے وہ نا آشنا تھی۔

"خدا کی محبت پر اعتبار ہو تو اس اعتبار کو کیا' کیوں' سے زائل نہیں کرنا چاہیے۔"

دینار نے اپنی نم آنکھوں کو انگلیوں کی پوروں سے تھپکنا چاہا۔ ”ہوا میں رچی یہ خوشبوئیں مجھے بے چین کر رہی ہیں بی بی۔"

" چلو میں تمہیں لے چلوں ۔۔۔۔ آؤ چلو۔۔۔۔ حدیثه خانم مجھ پر کیسی ہی سختی کیوں نہ کریں۔"

مہتابی ہر پیشکش پر حدیثہ کا نام ایسے لیتی ہے جیسے حدیثہ سے زیا وہ خود نہیں چاہتی کہ وہ باہر جاۓ۔ انجیر کے درختوں کے قریب جہاں گاؤں کے بڑے بوڑھے بیٹھ کر خوش گپیاں کرتے ہیں۔ دریا کے کنارے جہاں بچوں کو سارے کھیل سوجھتے ہیں۔ زلفیہ خانم کے تنور کے سامنے سے گزر کر جہاں عورتیں اپنے دن بھر کے کام ساتھ لیے بیٹھتی ہیں۔ آبشار کے پاس گھُسے ہوئے بڑے پتھر پر جہاں غالیچے پر بیٹھے ترسک کی جوان لڑکیاں مالٹے اور سیب کھاتی ہیں۔ پتھروں سے بنائے چولہے پر حلوہ بناتی ہیں ، قہوے کی پیالیاں بھر بھر کر پیتی ہیں اور شام ڈھلے اپنے ہاتھوں میں سوزنی کے شاہکار لیے اٹھتی ہیں۔ مہتابی نہیں چاہتی کہ ترسک گاؤں سے جڑے

اس گھر جس کی دیواروں کو کسی گھر کی ہمسائیگی میسر نہیں ہے سے وہ اندھی لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکلے۔ وہ دینار سے محبت کرتی ہے اور بس اس محبت کی خاطر ہی. صرف محبت کی خاطر۔۔۔۔

" یہ بھی ٹھیک نہیں ہو گا۔ یہ بھی تو ٹھیک نہیں ہو گا نا مہتابی۔۔۔! دینار کیسے چاہ سکتی تھی کہ حدیثہ ماں مہتابی کو برا بھلا کہیں یا پیٹ ہی ڈالیں یا انہیں جتائیں کہ کیسے خزاں کے دنوں میں انہیں بھوک سے مرنے سے بچانے کے لیے وہ انہیں اناج دیتی ہیں۔

"لیکن میں نورو گل کی شادی میں تمہیں لے جانے کا وعدہ کرتی ہوں۔ میری جان جائے یا مجھے حدیثہ خانم نکال دیں۔ " مہتابی وہ وعدہ بہت آسانی سے کرلیتی جس کی پاسداری کا وقت بہت دور ہوتا۔