SIZE
1 / 19

" ترسک گاؤں کی چمنیاں دھواں اگلنے ہی والی ہیں۔"

سیب اور انجیر کے باغوں سے ذرا قریب اور زرا دور' پہاڑی دربانوں کی آنکھوں کے عین نیچے ترسک گاؤں کی کچی پگڈنڈیوں کو اپنے پیروں تلے روندتے' میدان جنگ میں لوٹ مار مچانے والوں کی طرح شور برپا کرتے بھاگ رہے ہیں۔ وہ ابھی ابھی سب کے باغ سے سیب چرا کر آئے ہیں۔ ان سرخ سیبوں کی تازه خوشبو اڑ کر دینار سے ایسے لپٹتی ہے جیسے وہ خود بھی سیب چرا کر بھاگی جا رہی ہو۔

گول فریم پر پھول کاڑھتے اس کے ہاتھ رک گئے ہیں اور یوں اس ٹهہراؤ پر دھاگہ اس کی انگلی سے لپٹتا' تنبیہہ کرنے پر مجبور ہوا ہے۔ " سنو دینار! کچھ تو اپنی بے نوریت کا خیال رکھو۔"

اس نے سر کو کھلی کھڑکی سے باہر نکالا اور دور و نزدیک کھیتوں اور میدانوں میں شور مچانے والوں کے قہقہے اور قلقاریاں سنیں۔

" بی بی مہتابی! زرا بتاؤ تو' یہ سب شرارتی بچے جب سیب چرا کر بھاگتے ہیں تو بیرام بابا ان کے پیچھے نہیں بھاگتے؟"

" کیوں نہیں! بیرام بابا ان کے بیچھے اپنی لاٹھی لے کر بھاگتے ہیں۔"

وہ ہنسی۔ " لیکن بچے کیسے بیرام بابا کے ہاتھ آتے ہوں گے۔ بابا بھی یہی چاہتے ہوں گے کہ کوئی ہاتھ نہ آئے کہ انہیں مارنا ہی پڑے۔ اچھے بابا! ان کی داڑھی سفید ہے نا۔ سفید جو کہ تم کہتی ہو میری پتلیوں کے اطراف قابض ہے۔ کیا تم مجھے ان سیبوں کے ڈھیر تک لے چلوگی جسے لاد کر شہر لے جانا ہے۔ جو تازه تازه درختوں سے توڑے گئے ہیں؟"

اب مہتابی کو خاموش ہو جانا تھا۔

" بولو بی بی! کیا تم ایسا نہیں کروگی۔۔۔ کیا تم میری آنکھیں نہیں بنو گی؟"

" بنوں گی' خواہ مجھے حدیثہ خانم پیٹ ہی کیوں نہ ڈالیں۔" مہتابی نے حقیقت اور امکان دونوں پیش کر دیے۔