کسی امیر و کبیر سیٹھ سے وہ ایک شے مانگتا تو وہ ٹھوکریں رسید کردیتا کسی فقیر کے کشکول پر نظر ڈالتا تو وہ دھکا دے کر تیز رفتاری سے بھاگ جاتا گویا اپنے مال کے کچھ حصے کسی کو بخش د یے تو گناہ کبیرہ ہو جائے گا جہاں مزاروں پرلوگ کچھ بانٹ رہے ہوتے وہاں فورا اس ایک شے کی طلب کے لیے حاضری دیتا لیکن باری جب بھی میری آتی، سب ختم ہو جاتا ، وہ ایک شے نہ ملتی۔ کبھی کبھی قسمت یاوری پر ہوتی تو دن میں چہار بار بھی مل جاتی لیکن مکمل نہ ملتی ، ہمیشہ ٹکڑوں میں یا نصف مقدار میں' اس ایک شے کی یوں طلب رہتی کہ نہ گرم دھوپ میں گرمی چبھتی نہ سرد موسم میں جسم ٹھٹھرتا محسوس ہوتا ' بس اس کا دل فریب ذائقہ ' دل تو کبھی اس ایک شے سے ناراض رہ ہی نہیں سکتا تھا۔ سو بس چلتا رہتا کبھی آہستہ کبھی سست رفتاری سے تو کبھی چابک دستی سے دوڑنے لگتا بس اس ایک شے کی بنیاد پر نمو پاتا رہتا۔ اس بیج کی طرح بڑھتا رہا مزید سے مزید پروان کی سیڑھیاں عبور کرتا رہا' جس کے سرے کھوکھلے رہے لیکن وہ ظاہر نہ ہونے دے اور ڈھیٹ بن کر کھڑا رہے۔ میں نے چاہا کہ اس ایک چیز کا متبادل مجھے کوئی ملے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ مگر نہ ملا ، نہ پتھروں میں، نہ مٹی میں ، نہ لکڑیوں میں ، نہ آگ میں اور پھر آگ تو جھلسا کر رکھ دیتی ہے۔ ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تو بس اس ایک شے کی خواہش تھی۔
بھوکا ہو تو کتا بھونکتا ہے بلی کربناک صدائیں خارج کرتی ہے لیکن میں تو بس اس ایک شے کا دھیان کیے پیپل کے سوکھے پتوں کے تلے ٹانگیں پسار کر بیٹھ جاتا ' آسمان کو تکتا، گویا اوپر سے وہ ایک شے میری جھولی میں آ گرے گی۔ خاموشی سے پہلے پیلے پتوں کو چباتا مگر پھر قے کر دیتا کہ یہ اس کا نعم البدل نہیں۔ جتنا وہ شے مجھ سے گریزاں رہتی اتنا ہی میں اس کی
جانب لپکتا۔ اس ایک شے کی طلب نے مجھے عمر سے پہلے ہی کئی سال کا بوڑھا بنا دیا تھا۔ میرا دایاں ہاتھ بائیں سے نہیں ملتا ۔ لڑتا جھگڑتا رہتا ہے کہ جب بمشکل پانچ برس کا تھا تو اس کبڑے کی غفلت کے باعث میری چاروں انگلیاں جدا ہو گئیں پھر جو بھی کرتا الٹے ہاتھ سے ہی کرتا سیدھے کو بس سہارا دینے کے لیے مختص کر لیا ۔