جس دن ' جس شب ' جس دوپہر اور جس شام وہ ایک شے مل جاتی میرے لیے وہ وقت مبارک شادی کا ہوتا' میں کسی دلہے کی مانند اپنے سجے مسرت سے پر سہرے کے اندر اسے سارے جہان سے چھپا کر رکھتا ۔ دہ میری رفیقہ حیات بن جاتی ، میرے دل کی دھڑکن کو مزید بڑھا دیتی' میری بے نور آنکھوں میں سرمے سی کشش پیدا کر دیتی ' میرے خشک ہونٹوں کو اپنے لمس سے تر کردیتی اور میں اسے اپنی دلہن سمجھتا' لذت و عشرت کے مزے لوٹنے لگتا۔ وہ دو بھی نہیں ' تین تین بھی نہیں' چار چار بھی نہیں' پورے آٹھ دن ہونے کو آئے ہیں لیکن وہ ایک شے لمبے عرصے تک خزاں کی مانند مجھ سے روٹھ گئی ہے۔ قحط پڑ گیا ہے اس ایک شے کا جو تا حیات مجھے کبھی پوری نصیب نہ ہوئی ' کسی مزدور نے دی تو حقارت سے اور دی بھی آدھی، کسی کے بوٹ پالش کیے تو بھی ملی آدھی، کسی کے کپڑے رنگے تو ملی آدھی، کسی کی چلیں سیں تو ملی آدھی، سارا دن انٹیں اٹھائیں تو ملی آدھی۔ میں آدھا پیدا نہیں ہوا تھا، لیکن یہ مجھے ہمیشہ آدھی ملتی رہی اور میں اس آدھی کے نشے میں مسرور کئی کئی دنوں کا ناغہ بھی جھیلتا رہتا ۔ کبھی خداسے طلب نہ کی جو بن مانگے نوازتا ہے ' جو بانٹتا ہی رہتا ہے' دیتا ہی رہتا ہے۔ بندوں کے آگے ہاتھ جوڑا، سر جھکایا، مساجد کے در پر کھڑا رہا کبھی مسجد میں جا کر اس سے ملا قات نا کی جو آدھی روٹی دیتا تھا کبھی اس کا شکر ادا نہ کیا جس نے آدھی روٹی کی مسرت میں کئی گنا کمزور ولاغر بدن میں برقی توانائی بھر دی تھی اور پھر کیا ہوا بالاخر رسی کھینچ لی گئی۔
میں اپنی ہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ وہ ایک شے مجھے دکھائی دی ایک کتے کے منہ میں۔۔۔۔۔۔ اور میں اس پر کتے کی طرح ہی جھپٹ پڑا اور وہ آدھی روٹی مجھے پورا کھا گئی ۔۔۔۔۔۔۔ وہ آدھی ۔۔۔۔۔ زہریلی روٹی۔۔۔۔۔۔۔ !