جب بھی رات کا وقت ہوتا ہے تو قوی ہیکل سینے میں ایک توانائی سی بھر جاتی ہے۔ جسم کراہتا بھی تو دماغ پھر سے " ایک شے" کی جستجو میں سرگرداں ضدی بچے کی مانند سر پٹخنے لگتا' خالی دیواروں پر قہقہے لگاتے سائے ' سڑک پر آتی جاتی ٹریفک کی روشنی کی بدولت دکھائی دیتے لیکن " و ایک شے" " وہ ایک شے" کہیں دکھائی نہ دیتی ۔ ہوا کے تیز تھپیڑے
درختوں کی شاخوں دم مرگ آخری سانس لیتے میری ہمت توڑنے لگتے لیکن میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
میں تو اس " ایک شے" کے ملنے کی خوشی میں صعوبتوں کو جھیلنے کا عادی ہو چکا تھا کسے شکست تسلیم کرلیتا؟ " ایک شے" کے ملنے کی لمحہ بھر کی خوشی دن بھر کی ادرسی ، ملال، دکھ کو پل میں نچوڑ لیتی ہے۔
مجھے محبت کے فسوں کا کچھ علم نہ تھا کہ کیا ہوتا ہے؟ دوست بھی کوئی بنا ہی نہیں تھا تو بے اعتنائی کے کسی زخم سے آشنا بھی نہیں تھا اپنوں نے کبھی سینے سے لگایا ہی نہیں تو بیگانگی کے چرکوں اورضرب سے بھی ناواقف ہی رہا۔ میں واقف تھا تو " ایک شے" سے اجنبی نہیں تھی تو بس وہ " ایک شے" جدائی کا کرب تھا تو بس اس " ایک شے" کا۔
پیدا ہوا تو ایک کبڑے بوڑھے کے ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں یاد آیا ، کوڑے کے ڈھیرپر۔۔۔۔۔۔۔ نہیں شیاد ایسا بھی نہیں کسی بھوکی پیاسی روح کی کھوکھ نے مجھے جنا ۔۔۔۔۔۔ پھر جانے وہ جہنم واصل ہوئی یا کہیں اور، مجھے بس اس " ایک شے" کے راستے پر ڈال گئیں ۔ وہ ایک شے ہے تو زندگی ہے' وہ ایک شے ہے تو توانائی ہے' وہ ایک شے ہے تو مسرت ہے اور وہ نہیں تو دکھ ہے' غم ہے' جدائی ہے اور پھٹکار ہے۔
اور وہ ایک شے ہفتے میں تین دن مل جاتی تین وقت تو چار دن ناراض رہتی میں اس شے کی خاطر روتا نہ بلکتا، ہاں میری آنکھیں ضرور مثل مشعل چمکتی لوگوں کے ان رویوں پر جو میرے ساتھ برتنا فرض سمجھتے لیکن میں ' میں عجیب بے حس تھا یا شاید ہوگیا تھا اس ایک شے کی طلب میں۔۔۔۔۔ بس اس ایک شے کی طلب کے لیے۔