آنے والے دن ہنگامہ خیز رہے اور جس وقت ان کی مسافروں سے کھچا کھچ بھری بس "منڈی مرید کے" کے لیے روانہ ہوئی. آتے جاڑوں کی
دھوپ ہر سو پھیلی ہوئی تھی. بتولاں بی بی آج سے چھ سال پہلے بنایا گیا ویلوٹ کا جوڑا پہنے کافی با اعتماد اور باوقار دکھائی دے رہیں تھیں.
پرس بھی کندھے پر ڈال رکھا تھا اور بہت تیز عنابی رنگ کی لپس سٹک بھی لگا کر رکھی تھی.
"انوری کے گھر بچھ بچھ جانے کی ضرورت نہیں ہے."
یہ وہ ہدایت تھی جو اتنے دنوں میں بار بار دی تھی.
"اماں! مونگ پھلیاں ہی خرید لو". نازی نے للچائی نظروں سے مونگ پھلیوں کے پیکٹوں کو دیکھا.
"دفع دور. پہلے ہی دھوئیں نے کلیجہ ساڑا ہوا ہے".
"اچھا پھر مسالے والی مولیاں ہی لے دو".
"کمبختو! ڈکار مار کر سب کا سفر غارت کرو گی."
"اماں! کنجوسی کی حد ہوتی ہے". لڑکیاں خفا ہوکر بولیں.
بتولاں بی بی نے ٹھنڈی سانس بھری. کیا بتاتی مہنگائی کے اس دور میں کیسے دانتوں سے پکڑ کر خرچ کر رہی ہیں. بچے چوتھے تھے جب بیوہ ہوئی تھی،
کچھ لوگوں کے کپڑوں کی سلائیاں کیں. بازار میں اچار چٹنیاں بنا کر بچیں پر سچی بات ہے جیسے اب آکے کمر ٹوٹی تھی، اتنی تنگی پہلے نہیں تھی.
اب رشید عرف کاکا کماتا تھا. وہ خود اب تک اچار چٹنیاں بنا کر فروخت کرتی تھی. بہو بیٹیاں بھی تھوڑا بہت سلائی کڑھائی کا کام کر لیا کرتی تھیں مگر
مہینہ پار ہی نہیں ہوتا تھا. بجلی، گیس، پانی کے بل بھرتے بھرتے وہ خالی ہو جاتے اور اور پیٹ کا دوزخ بھرنا عذاب ہو رہا تھا.
"اوپر سے یہ بیاہ شادی کے خرچے. میری بھی دو بیٹھی ہیں. کہاں دھکا دوں انہیں، سارے غریب طبقے کے حالات ایک جیسے ہیں لیکن ہم ایک دوسرے
کا نہیں سوچتے. کتنی خود غرضی سے صرف یہی سوچتے ہیں کہ اپنا گھر بھرتا جاتے ورنہ اگر بیٹیاں دو کپڑوں میں ہی رخصت کرا لی جائیں تو".
"اماں! کیا سوچ رہی ہو، کتنی آوازیں دی ہیں سنتی ہی نہیں ہو". نازی نے کندھا ہلایا.
"ہک ہا! بتولاں کو تو مہنگائی کے جن نے ہی مار ڈالا ورنہ یہ بتولاں تو مرنے والی نہیں تھی".
"چھوڑ اماں دفع کر مہنگائی کو اور مہنگائی کرنے والوں کو. وہ دیکھ نئی نویلی دلہن کیسا پیارا سوٹ پہن کر بیٹھی ہے". نازی نے سرگوشی میں
بتایا اور سائیڈ والی سیٹوں کی جانب اشارہ کیا.
"دفع دور. پیارا سوٹ، ناس پیٹی سے اتنا نہیں ہوا، اوپر چادر ہی دال لے دیکھ تو سارے مرد کیسے دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے ہیں اور اسکا مرد.،
بے حیا، بے غیرت".
"چپ کر اماں".نازلی تو کہ کر پچھتائی.