"کھلا جی! تسی پچھلی سیٹوں پر چلے جاؤ". کنڈیکٹر نے آکر حکم دیا.
"ناں پر کیوں؟ ادھر کس مسٹنڈے کو بٹھانا ہے".
"اوه مائی! آہستہ، وہ اپنے تھانے دار صاحب آرہے ہیں".
"خیر تو ہے میں نے ٹھیک ہی بولا ہے اور تو کہ دے اپنے تھانے دار سے. میں کوئی مفت میں یہاں نہیں بیٹھی، ٹکٹ خریدے ہیں".
"کیوں تماشہ کتیی ہے. ہم ساروں کو بس سے اتروا دیں گے".
"چل اماں پیچھے چلتے ہیں". رشید جلدی سے بولا اور بتولاں بھی اٹھ کھڑی ہوئیں. ملول اور اداس. پیسے دے تھے لیکن زور آور کا زور چل گیا.
وہ آخری سیٹ پر آگئے جہاں ہچکولے بہت زیادہ لگتے تھے.
چند سال پہلے اتنا اندھیرا نہیں تھا، لوگ مظلوم کی حمایت میں بولتے تھے مگر اب تو کسی کو کسی سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے. کوئی اس
کے حق میں نہیں بولتا. سب تھانے دار سے ڈر گئے تھے.
"اماں! پھوپھی کا گھر ڈبل سٹوری ہے نا، بہت سے کمروں والا".
"آہو! پچھلے سال آئی تھی تو بتا رہی تھی. بھئی ہمیں کیا تم چاہے چار سٹوریاں بنا لو. ہم اپنے دو کمروں میں ہی خوش ہیں".
"نہیں! اماں میں تو اس لئے کہ رہی تھی. چلو ایک کمرہ تو مل ہی جاتے گا ناں. سچی ان ہچکولوں نے کمر کی ہڈیاں چٹخا دی ہیں اور ہماری سڑکیں".
"سڑکیں کدھر، کچے پکے راستے ہیں بس جن پر بس چلتی کام اچھلتی زیادہ ہے".
"یہ کم بخت تھانے دار اسکی تو پیٹی ہی اتر جاتے، اچھے بھلے اگلی سیٹوں پر بیٹھے تھے". بتولاں بیگم کو نئے سرے سے تاؤ آیا.
"اۓ بہن کدھر جا رہی ہو"؟ اگلی سیٹ پر بیٹھی عورت نے اپنی بوریت مٹانے کو گفتگو کا آغاز کیا.
"گھر ہی جا رہی ہوں، ناں تجھے کلبوں میں جانے والی لگتی ہوں"؟
"اۓ ہے! دفع ہو لگتا ہے کسی نے دھکے دے کر گھر سے نکالا ہے. خاتون نے وار کرنے کے بعد رخ موڑ لیا.
"بتولاں کو دھکے دینے والا کوئی پیدا نہیں ہوا".
"اوے کی شور پایا ہویا اے! چپ کر کے بیٹھ جاؤ. انکی سیٹوں پر قبضہ کر کے بیٹھے تھانے دار گرجے.
"وے مسافرو! دس دس روپے صدقے کے نکالو اور اس پولیس والی کو دو.لگتا ہے جیب خالی ہے. اس لئے اتنا تپ رہا ہے".
بتولاں بی بی کا تیکھا وار. وہ تو تڑپ گئے اور لگے للکارنے، کاکا رشید کا تو رنگ اڑ گیا. دونوں لڑکیاں بھی سہمی جا رہیں تھیں".
"کون مرد ہے اس بدتمیز عورت کے ساتھ. ذرا طبیعت تو صاف کروں اسکی".
"اہ جی! پھلے اپنے منہ پر لگی چکنائی تو صاف کرو. مکھی بار بار پھسل رہی ہے اسکے بعد عورت کی سچی بات پر غصّہ کر لینا."
یہ دو سٹوڈنٹس تھے، گرم جوشیلے خون والے. ان کا بولنا تھا کہ باکی سب بھی بھنبھنانے لگے.
تھانے دار کو وقت کا تقاضہ سمجھ میں آگیا اس لئے چپ سادھ لی.