"تیری پھوپھی ساس انوری کی بیٹی ستارہ کی شادی بربادی ہو رہی ہے. بلایا ہے ہم سب کو. انوری اپنی واری دے چکی ہے، تیری شادی پر وہ جو کام
والے چار جوڑے تھے نا، وہ اسی کی طرف سے تھے،اور وہ انگوٹھی جس پر نیلا نگ لگا ہوا تھا. وہ بھی اسی نے دی تھی.
"اچھا! تو اب میں کیا فیر"؟
"ایں کیا کروں، نی کسی پاگل دی اولاد،بدلے میں تجھے بھی تو اب یہ سب بلکے اس سے بڑھ کر دینا پڑے گا."
"ناں! میں کوئی کمائیاں کرنے نکلتی ہوں، کہو اپنے پتر سے، لا کررکھے پیسے تمہارے ہاتھ پر".
"میں جو کماتا ہوں اماں، تمہارے ہی ہاتھ پر رکھتا ہوں".
"ہاں! ٹھیک کہ رہا ہے میرا گھر والا. ہم میں بیوی تو اپنا کما کر بھی فقیر کے فقیر ہی رهتے ہیں یہ سب کچھ تمہیں لا پکڑاتا ہے".
بتولاں بی بی نے انکی کسی بات کا جواب نہیں دیا. وہ سوچ میں پڑ گئیں تھیں. اچھا بھلا خرچہ آگیا تھا سر پر. بتولاں بی بی کو جب کچھ نہ سوجھا تو سر
پر کالا دوپٹہ باندھ کر لیٹ گئیں.
"ہاتے ہاتے اماں! اتنے شوق سے ساگ پکوایا تھا، تھوڑی سی روٹی تو کھا لے. ڈیڑھ گھنٹے بعد ثریا نے آکر کندھا ہلایا.
"ہن کتھے دا ساگ! سوچوں نے مار دیا ہے مجھے".
"اماں! اٹھ تو". اکلوتی بہو نور جہاں بھی چلی آئی. اور اکر بستر پر انکے قریب ٹک گئی.
"برادری میں بڑی تھو تھو ہوگی نوری میری تو". آواز بھرا گئی.
"ناں! ایسے ہی تھو تھو ہوگی. میں سوچ رہی ہوں پچھلے سال دبئی سے میری خالہ دبئی سے میرے لئے جوڑے لے کر آئیں تھیں. ویسے کے ویسے
ہی رکھے ہیں اور رہی بات انگوٹھی کی ووہی پھوپھی کی دی ہوئی انگوٹھی میں کچھ پیسے ملاکر ٹاپس بنوا لیتے ہیں. نگ موتی زیادہ لگوائیں گے
تو خوب بھاری بھاری لگیں گے.
"جیتی رہو! الله تمہیں شاد آباد رکھے". بتولاں بی نے بڑھ کر پیشانی چوم لی.
"اماں! ًنئے کپڑے تو ہمارے بھی ہونے چاہیں". لڑکیوں نے یاد دلایا اور کوئی اور موقع ہوتا تو بتولاں اس یاد آواری کا شکریہ بہت اچھے طریقے سے
ادا کرتیں لیکن اب تو سر سے بوجھ اترا تھا، تو توجہ نہیں دی.
....................................................................