انکے کمرے میں آگھسے تو اسکا دھیان ماریہ کی جانب سے ہٹ گیا. وہ بہنوں کی خوش گپیوں اور بھانجے بھانجیوں کی شرارتوں میں
مگن تھا.
رات گئے اسکے بہنوئی اپنی بیویوں کو لینے کے لئے آئے. ماریہ کو پھر سے کھانا گرم کر کے انکو بھی سرو کرنا پڑا بظاہر وہ
خاموش اور پر سکون تھی لیکن اطہر جانتا تھا کہ اسکی خاموشی کے پیچھے کتنا بڑا طوفان پوشیدہ ہے. مہمانوں کے جانے کے بعد جب
گھر میں سناٹا چھا گیا تو امی ابو سونے کے لئے اپنے کمرے میں چلے گئے تو وہ کسی بپھری ہوئی شرینی کی طرح کمرے میں اٹھا پٹخ
کرنے لگی اور اب تھک ہار کر سونے کے لئے لیٹ گئی تھی. اطہر کا جی چاہا تھا وہ اسکو منائے لیکن وہ جانتا تھا کہ وہ ایک مرتبہ رونا
شروع کر دے گی تو ساری رات اسکے آنسو پونچھتے ہی گزرے گی. پھر یہ نہ کوئی نیا مسلہ تھا اور نہ ہی اسکا کوئی حل تھا. وہ
دونوں بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا. ماں باپ کا اکلوتا بیٹا! پھر اسکی بہنیں عمر میں اس سے کافی بڑی بھی تھیں. کسی بھی معاملے میں ماں
بہنوں کے کے سامنے اسکو جرات لب کشائی نہ تھی. عارفہ اور شارقہ اپنے گھروں میں مکمل خود مختار تھیں. شوہر ان سے دبتے تھے.
ان پرقدغن لگانے یا روک ٹوک کرنے والا کوئی نہیں تھا. وہ دونوں ہر دوسرے روز اپنے بچے لے کر میکے میں آدھمکتی تھیں. ماں
باپ اپنی بیٹیوں کے دیوانے تھے. وہ ان پر واری نثار ہوتے. انکے بچوں کے آگے پیچھے پھرتے. ماریہ کو انکی خاطر مدارات میں اپنا
پورا دن کچن کی نظر کرنا پڑتا.
شروع شروع میں اسے بھی بہت مزہ آیا. نندوں کے آجانے سے گھر میں رونق ہو جایا کرتی تھی. ان کے بچوں کی معصومانہ
باتوں سے دل لگا رہتا تھا. اطہر اور وہ سنا کرتے تھے. پکنک کا پروگرام بنا کرتا تھا. خوب ہلا گلا ہوتا. کبھی گھر پر ہی
محفل جمتی. باہر سے کھانا منگوا لیا جاتا. وہ سب مل کھیلتے. کوئی نئی فلم دیکھی جاتی. تبصرے ہوتے.
رفتہ رفتہ ماریہ کا دل ان باتوں سے اوبنے لگا. اس پر انکشاف کے در وا ہونے لگے. اطہر ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اچھے عہدے
پر کام کر رہا تھا اور پر کشش تنخواہ تھی. لیں بہنوں کے ہر دوسرے روز وارد ہونے اور دعوتیں اڑانے کے عمل سے تنخواہ میں
سے کچھ بھی پس انداز نہ ہو پاتا. مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی تنخواہ ختم ہو جاتی. اکثر اطہر کو قرض لینا پر جاتا. پھر ماریہ کی
مصروفیت بھی بہت ہو جاتی.طرح طرح کے پکوان بنا کر وہ عاجز آجاتی. پھر بھی بچے نت نئی فرمائشیں کیا کرتے. عارفہ اور
شارقہ "مامی سے کہو" کا لاڈ بھرا جملہ بول کر ماں سے باتوں میں مصروف ہو جاتیں. ماریہ کے ارد گرد بچے ناچتے اور شور
مچا مچا کر محتلف فرمائشیں کرتے. انکے جانے کے بعد بھی انکی بکھیری ہوئی چیزیں سمیٹتے اسے آدھی رات ہوگئی. تب کہیں
تھک ہار کر اسے بستر نصیب ہوتا تھا. چند ایک دن سکون رہتا اور پھر ایکشن رپلے ہو جاتا. ماریہ آرٹسٹک مزاج کی لڑکی تھی.