SIZE
3 / 5

اسکو گھر کو سجانے کا بہت شوق تھا. جگہ جگہ رکھے هوئے ڈیکوریشن میں اسے بھاتے تھے. لیکن عارفہ کے پانچ اور شارقہ

کے تین بچوں اسکے شوق کا حلیہ بگاڑ دیا تھا. ماریہ کے شوق سے بنائی ہوئی چیزیں کچھ عرصے میں کوڑے دان کی زینت بن

جایا کرتی تھیں. رفتہ رفتہ اس نے اس شوق کو بھی ختم کر دیا. گھر کی دیواروں پر بچوں نے خوب گل و گلزار بنائے تھے. ان لوگوں

کا بیڈ روم بھی انکی دسترس سے محفوظ نہ رہ سکا تھا. ماریہ کے جہیز کی چیزوں کی خوب ریڑھ لگی تھی. سائیڈ ٹیبلوں کے

شیشے ٹوٹ چکے تھے. دروازوں کے لٹو نکل گئے تھے. صوفوں کا کپڑا کسی ستم ظریف نے چھری مار کر پھاڑ دیا تھا.

ماریہ بے حد حسرت سے اپنے جہیز کی بیش قیمت چیزوں کا حشر ہوتے دیکھتی رہتی.

اطہر جانتا تھا یہ اسکے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے. لیکن وہ خود کو مجبور پاتا تھا. آخر وہ اپنی بڑی بہنوں کو گھر آنے سے روک تو

نہیں سکتا تھا. انکے بچوں کے ہاتھ پیر وہ نہیں باندھ سکتا تھا نہ ہی انکو تمیز سکھانا انکے اختیار میں تھا. ماں باپ کے

سامنے زبان کھولنے کا بھی تصور نہیں کر سکتا تھا. کجا یہ کہ وہ ان سے الگ ہونے کے متعلق سوچتا.

پاس اتنا طے تھا کہ اس کے بس میں کچھ بھی نہ تھا جو وہ ماریہ کے لئے کر پاتا. وہ اسکے حق میں بولتا بھی تو کیا بولتا. ماریہ

اندر ہی اندر گھلتی رہی. ازدواجی زندگی میں بے جا مداخلت نے اسکی نیندیں حرام کر دیں تھیں. وہ خوشی سے دور ہوتی جا رہی تھی.

وہ اپنے طور پر جینے کی خواھش مند تھی. اسے پر سکوں گھر کی بہت ضرورت تھی. لیکن عارفہ اور شارقہ سب کچھ جانتے

بوجھتے بھی اپنی روش سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں تھی. وہ سمجھتی تھیں کہ گھر کی ہر ہر چیز میں اسکا حصّہ ہے اور

دھڑ لے سے اپنا حق وصول کیا کرتی تھیں. انہوں نے اپنا حق ماریہ کی خوشیوں میں بھی شامل کر لیا تھا.

......................................

ماریہ کے مزاج میں تبدیلی آرہی تھی. وہ دن بدن ذہنی طور پر اطہر سے دور حتی جا رہی تھی. یوں تو وہ ایک نرم

مزاج اور اچھے دل کی تھی لیکن حالات اسے بد مزاج بننے پر مجبور کر رہے تھے. وہ چڑ چڑی ہوتی جا رہی تھی.

اطہر کو اپنی پرواہ نہیں تھی لکی اسکو اپنی بہنوں اور ماں کے جذبات کی فکر تھی کہ کہیں ماریہ ان سے بری طرح

پیش نہ آئے. وہ ماریہ کو سمجھانا چاہتا تو اسکا رد عمل بہت خراب ہوتا. وہ اسے برا بھلا کہتی. دو دو دن بات نہ کرتی.

ہر چند کے اس نے تب تک اس نے اپنے سال سسر یا اپنی نندوں سے براہ راست ایسی کوئی بات نہیں کی تھی. لیکن اسکا

گریز آمیز رویہ خود اپنی کہانی کہنے لگا تھا. اطہر کی ماں کی پیشانی شکن آلود رہنے لگی تھی. انہیں بیٹیوں سے بہت محبت