اطہر نے چپکے سے نگاہیں اٹھائیں اور کتاب کے پیچھے چہرہ چھپا کر دیکھا. وہاں موسلادھار برسات ہو رہی تھی.
موسم بے حد خطرناک ہو چکا تھا. اطہر نے کتاب جلدی سے اوپر کر لی اور ناول پڑھنے میں منہمک ہوگیا.
ماریہ اب سونے کی تیاری کر رہی تھی. چیزوں کی اٹھا پٹخ جاری تھی. وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے نجانے کیا کر رہی تھی.
اطہر کو الجھن ہونے لگی. اس نے پھر ذرا کی ذرا کتاب سرکا کر دیکھا. وہ ٹشو پیپر سے خوب آنکھیں رگڑ رہی تھی.
پھر وہ ہیر برش بالوں میں چلانے لگی. انداز میں کسی بپھرے هوئے دریا کا سا شور تھا. اطہر پھر کتاب کے پیچھے دبک گیا.
چند ثانیوں کے بعد وہ دھڑام سے اپنی جگہ پر آگری. تکیہ سر کے نیچے سے نکال کر چہرے کے اوپر رکھا اور بے ہس و حرکت
ہوگئی.
اطہر اکا جی چاہا، کتاب بند کر کے دور پھینکے اور اسکا تکیہ اٹھا کر کتاب پر دے مارے پھر اسکا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام
کر جھنجھوڑ جھنجھوڑ کا قصور پوچھے! بھلا اس سارے قصے میں اس جان ناتواں کا کیا قصور ہے؟
آج کا دن جو کہ گزر ہی چکا تھا، انکی شادی کی سالگرہ کا دن تھا. ماریہ چونکہ بہت رومانٹک مزاج کی حامل لڑکی تھی سو
اپنے مزاج کی مناسبت سے اس نے اپنی شادی کی سالگرہ کے لئے خوں پروگرام ترتیب دے تھے. آخر یہ انکی شادی کی پہلی
سالگرہ تھی وہ اس دن اپنے عروسی جوڑے میں ملبوس ہوکر سالگرہ کا کیک کاٹنا چاہتی تھی. پھر وہ گھومنے کے لئے باہر
جانا چاہتی تھی. "کوپر کیٹل" میں شان دار ڈنر کے بعد وہ سمندر پر جانا چاہتی تھی.
سوئے اتفاق آج کی رات چاندنی رات بھی تھی. ماریہ بہت جوش و خروش کے ساتھ کوئی ہفتہ بھر سے پروگرام ترتیب دے رہی تھی.
اطہر نے بڑے تو بڑے پیمانے دعوت ارینج کرنی تھی تو ماریہ نے صاف انکار کر دیا تھا. اسکا خیال تھا کہ یہ دن قطع طور صرف
ان دونوں کا دن تھا اور کسی تیسرے فرد کی مداخلت اسکو منظور نہ تھی. کجا کہ دعوت کے نام پر بہت لوگوں کو اکھٹا کر لیا جائے .
اطہر نے بھی اپنی خوشی کے خیال سے اپنا ارادہ کینسل کر دیا. آفس سے بھی وہ بہت جلد لوٹ آیا تھا. لیکن آج کا دن شاید قسمت کی
خرابی کا دن تھا. گھر آکر اسکو معلوم ہوا کہ اسکی دونوں بہنیں اپنے بچوں کے ساتھ اسکے گھر مینن موجود تھیں. عارفہ اور شارقہ
کی یادداشت بلا کی تیز تھی وہ ایسے مواقعے ذہن نشین کر لیتی تھیں. وہ دونوں بنا کسی تحفے کے، اپنے اپنے بچے لے کر آگئیں تھیں.
اور اپنی ماں سے خاص طور پر گھر کی پکی ہوئی بریانی اور کھیر کی فرمائش کی تھی. صباحت بیگم نے بیٹیوں کی فرمائش پر ماریہ
کو بریانی اور کھیر تیار کرنے کا حکم صادر کر دیا تھا.
اطہر جس وقت گھر لوٹا، ماریہ اسے عروسی لباس میں ملبوس ملنے کے بجاتے ایپرن باندھے پیاز کاٹتی ہوئی نظر آئی. اسکی آنکھوں
سے دھواں دھار پانی بہہ رہا تھا. جو پیاز کے اثرات کے بجاتے اسکے اندرونی جذبات کا مظہر تھی. اطہر نے اس سے بات کرنی چاہی
تو وہ رخ موڑ کر کھڑی ہوگئی. وہ چپ چاپ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا. پھر اسکی بہنیں، بھائی ، بھائی اور بچے ماموں، ماموں کرتے