ڈھیر تھا، کاؤنٹر داغ دھبوں سے اٹے هوئے تھے.
نعیمہ نے سبزی تو کٹ لی تھی لیکن اب اسے پکانے کے لیے کچن میں جانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا. کچن گندا تھا اور مکھیوں کے
غول کے غول وہاں دعوت شیراز اڑانے میں مشغول تھے. اس پر گرمی کی شدت سے بےحال ہوتی سانسیں.
نعیمہ جی باہر کر- ای - ایس - سی والوں کو کوستی رہی. بچوں کو اب بھوک ستانے لگی تھی. وہ بہانے سے آپس میں لڑ جھگڑ کر
رو رہے تھے.
"ارے یہ دنیا کے دھندے تو یہیں رہ جایئں گے لوگو..... ملک الموت سامنے آکھڑا ہو تو تم اپنے بچوں کو بھول بھال کر اس کے ساتھ
چل دوگے..... پھر بتاؤ کیا لے جاؤ گے اپنے ساتھ؟ اولاد؟ دولت؟ یہ دنیاوی مصروفیت؟ جو ساتھ لے کر جاؤ گے اس کی تیاری کرو
لوگو......" نعیمہ جزبز ہوئی. مولوی تو سیدھا اسی کو جتا رہا تھا. اس نے بے حد بیزاری سے اپنے چھوٹے فلیٹ پر بھر پور نگاہ دوڑائی.
یہاں سے وہاں تک سب کچھ الٹا تھا. کچھ بھی ایسا نہیں تھا جو نظر اور دل تو تسلی دیتا.
"ایسا مبارک دن اور ایسی نحوست کے ساتھ گزارا جاتے!" اس نے پیشانی پر ہاتھ مرا" "صبح کی آس میں بیٹھی رہی. کچھ ذکر ازکار ہی
کر لیتی. ہاتے نعیمہ! تیرا کیا بنے گا؟ کیا لے جاتے گی اپنے ساتھ؟"
پھر وہ بہت ہمت کر کے اٹھی اور کچن میں جا گھسی..... بجلی اور پانی نہ تھے. غنیمت تھا کہ گیس آرہی تھی. ان نے کونے میں دھرے
بڑے سے کین سے پانی نکالا اور دیگچی مانجھنے لگی. گھر چھوٹا تھا اور کچن بہت چھوٹا. ضرورت کے چند برتن رکھنے کی گنجائش
تھی، ہر بار انہیں دھو کر کام چلانا پڑتا تھا. نعیمہ نے پتلی دھو کر چولہے پر رکھی اور سبزی پکانے لگی.
"امی...... سب سے چھوٹا والا آنسوؤں سے چہرہ بھرے اس کی ٹانگوں سے آلپٹا"" امی........ کھانا دو اب مجھے بھوک لگی ہے"
"اچھا میرے چند.... بس ابھی دیتی ہوں...." نعیمہ نے اسے چمکارا.
"میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے...." وہ چلایا
نعیمہ نے بےبسی سے ادھر ادھر دیکھا پھر شیلف سے بسکٹ کا ڈبہ نکل کر تھما دیا" " لو یہ کھاؤ میں ذرا سی دیر میں کھانا دیتی ہوں....."
بچہ بسکٹ پا کر اچھلتا ہوا باہر چلا گیا. نعیمہ نے دوسرے چولہے پر توا رکھ دیا اور ساتھ ہی روٹیاں بھی پکانے لگی. اسکے کانوں
میں خطبے کے الفاظ گونج رہے تھے. اسے خود پر اور ہر چیز پر غصہ آرہا تھا. اس وقت اسے جاتے نماز پر ہونا چاہیے تھا.
"کیا لے جاؤ گے اپنے ساتھ؟ اولاد ؟ دولت؟ دنیاوی مصروفیات؟
وہ تاسف سے گہری روٹی اور سالن ساتھ ساتھ تیار کر رہی. آدھے گھنٹے میں اس نے کھانا تیار کر لیا تھا. کچن سے باہر پڑی چھوٹی سی
گول میز پر کھانا رکھ کر اس نے بچوں کو آواز لگائی. وہ تینوں بھوک سے بے تاب ہو رہے تھے. اچھلتے کودتے چلے آئے. ابھی نعیمہ
انکی پلیٹوں میں سالن ڈال ہی رہی تھی کہ بجلی آگئی.