اور جس بندے نے دنیا میں سکھ ہی سکھ دیکھے ہوں گے اور ان نعمتوں پر خدا کا شکر بجا لیا ہوگا اسے خدا بالوں
سے پکڑ کر دوزخ میں ایک غوطہ دے گا، پھر نکال کر پوچھے گا. "اے ابن آدم! بتا تو نے کبھی کوئی سکھ یا آرام
پایا؟" "وہ کہے گا" اے پروردگار! کبھی نہیں.......ہمیشہ سے اسی پریشانی میں مبتلہ ہوں...."
نعیمہ نے چھری میز پر رکھی اور ما تھے پر آیا پسینہ دوپٹے کے پلو سے پونچھنے لگی. گرمی سے دم نکلا جا رہا تھا.
پلازا کی لغت تین گھنٹے سے غائب تھی. دوپہر کا ایک بج رہا تھا. مسجدوں میں جمعے کا خطبہ ہو رہا تھا. جن علاقوں میں
لائٹ تھی وہاں کی ایک مسجد سے خطبہ پڑھتے مولوی کی آواز سنائی دے رہی تھی.
نعیمہ نے سپر پاؤ بھر مہندی تھوپی ہوئی تھی اور اب خود کو کوس رہی تھی کہ مہندی لگانے کے لئے جمعہ مبارک کا دن ہی
رہ گیا تھا کیا؟
اور جس بندے نے دنیا میں رنج،پریشانی اور دکھوں کا مقابلہ کیا ہو اسے اس کا پروردگار جنّت میں ایک غوطہ دے گا اور پوچھے
گا. " اے بندے بتا، کبھی تو کسی مثبت میں مبتلہ ہوا؟" وہ کہے گا نہیں" میرے پروردگار! ہمیشہ سے اپنی آسائشوں میں ہوں.... کبھی کوئی
دکھ چھو کر نہیں گزرا" "میری کمبختی! اس نے خود پر دانت پیسے، مہندی نہ لگائی ہوتی تو کپڑے بدل کر جمعہ نماز تو پڑھ لیتی... اب
نجانے کس وقت لائٹ آتے، کب پانی ٹنکی میں چڑھے تو کب نہاؤں گی..... جمعہ کے دن کی رحمت سے بھی محروم رہی. خدا ان
بجلی والوں کو سمجھے.... اتنا اتنا بل وصول کر کے بھی ان کے پیٹ نہیں بھرتے. کھوٹی نیتوں کا کھوٹا پھل..... سدا ان کے کھمبوں
میں کہرابی ہی رہتی ہے... ور بھگتان ہم غریب بھگتتے ہیں.
وہ دوپہر کے کھانے کے لئے سبزی تیار کررہی تھی. تینوں بچے نیکریں پہن کر گھر بھر میں ادھم مچا رہے تھے. گرمی اس قدر تھی
کہ دیواریں بھاپ اگل رہیں تھیں. نعیمہ نے بچوں کو اسکول سے لوٹنے پر انکو محاز نیکریں ہی پہنا دیں تھیں. اس امید پر کہ لائٹ آنے
پر نہلا کر کپڑے پہنانے گی. خود اس نے صوبۂ اٹھتے ہی، رات گھول کر رکھی ہوئی مہندی بالوں میں لگائی. اب گرمی کی شدت
سے مہندی کا پانی بہہ بہہ کر اس کا چہرہ بھی گل و گلزار کر رہا تھا. کاٹن کی قمیض پسینے کی زیادتی سے گیلی ہو رہی تھی. گرمی
کی وجہ سے اسکا کام کرنے کو بھی جی نہیں چاہت تھا. یہی وجہ تھی کہ اب تک نہ اس نے ٹھیک سے گھر صاف کیا تھا نہ ہی کچن
کی بحالی کی کوئی صورت تھی. لائٹ نہیں تھی تو پانی بھی نہیں تھا صبح کے جھوٹے برتن یوں ہی سنک میں پڑے هوئے تھے جن
پر بھنبھناتی مکھیاں اب اکتا کر اندر کمروں کا رخ کر رہی تھیں. چولہے گندے ہو رہے تھے اور ان میں ماچس کی جلی ہوئی تیلیوں کا