بچوں نے نعرے بلند کیے. نعیمہ کے لبوں پر خوشی سے مسکا ن دوڑ گئی. اس نے باآواز بلند خدا کا شکر ادا کیا اور پنکھے چلا دیے.
بچے کھانا کھانے میں مشغول ہوگئے. نعیمہ بکھرا ہوا گھر سمیٹنے لگی. دو چھوٹے بیڈ روم اور ڈرائنگ ڈائننگ اسے زیادہ دیر نہ لگی.
حب تک بچوں نے کھانا کھایا وہ گھر کی چیزیں سمیٹ چکی تھی. جھاڑو پونچھا تو کام والی صوبۂ ہی کر گئی تھی.
مسجدوں میں اب نماز کے بعد درود و سلام ہو رہا تھا. نعیمہ نے نول کھول کر چیک کیا. پانی آرہا تھا. جی ہی جی میں شکر بجا لاتے
اس نے بچوں کو باتھ روم میں دھکیلا. اور خود کچن میں آگئی. جلدی جلدی برتن دھو کر رکھے چولہے اور شیلفصاف کے اور فرش
پر وائپر پھیر کر بھر نکل آئی.
"کم بختو...." اسنے سب کو ایک ایک جہاںپر رسید کیا" " ابھی گھر سمیتا ہے میں نے..... تم پھر حشر نشر کر دو. چلو کپڑے پہن کر
لیٹو تھوڑی دیر کے لیے."
بچوں کو لباس پہنا کر اس نے انکو بیڈروم میں بند کر کے خود اپنا جوڑا نکل کر نہانے گھس گئی. بالوں سے مہندی
صاف کرتے ہوے اسکو نہانے میں بہت وقت لگ گیا.
نہا دھو کر باتھ روم کو صاف ستھرا کر کے جب وہ برآمد ہوئی تو گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا. گیلے بال جھٹکتے هوئے
اس نے ذرا کی ذرا بچوں کے کمرے میں جھانکا. وہ تینوں بستر پر آڑھے ترچھے لیٹے بے خبر سو رہے تھے.
نعیمہ کے جی کو مسلسل تسلی اور بھرپور سکون فراغت کا احساس ہوا. صبح سے جس ذہنی تھکن اور پریشانی سے
نبرد آزما تھی، اس سے گلو خلاصی ہوئی. اسے بھوک کا احساس ہوا. گھر میں پھیلی کھانے کی خوشبو اسے اب محسوس
ہونے لگی.
وہ کچن میں چلی آئی. صاف ستھرا کچن اسکی نگاہ کو ڈھیر سکون بخش گیا اس نے اپنے لئے کھانا نکالا اور باہر پڑی میز پر
آبیٹھی.
گھر اب "گھر" لگ رہا تھا. پنکھے چل جانے پر گرمی اپنے پر سمیٹ کر بالکنیوں میں جا نکلی تھی. گھر میں ٹھنڈک اور سکون تھا.
نعیمہ نے کھانا کھا کر ایک مطمین ڈکار لی. پھر وہ اٹھی اور جھوٹھے برتن کچن میں رکھ کر کمرے میں چلی آئی. اے سی آن