SIZE
4 / 16

’’ریلیکس۔‘‘ماما نے کہا ‘کسے کہا یہ معلوم کرنا تھا کیونکہ ماما اکثر خطرناک باتوں سے پہلے ریلکیس کہتی ہیں۔میرے دماغ کے اندر چھوٹا سا الارم بجا۔

تمہارے چچا کی بیٹی عروہ سے ہم تمہارے منگنی کر چکے ہیں۔‘‘ پاپا نے فورا کہا جیسے ایک بالٹی پانی غٹا غٹ پی گئے۔

معلوم ہو گیا۔ وہ ریلکس مجھے کہا گیا تھا۔

منگنی؟ میں نے بیگ کو اتنی زور سے پنچ مارا کہ وہ پاپا کے کھجلی زدہ کان کو چھو کر واپس آیا۔

جب تم چار سال کے تھے تب سے۔

کیا میں نے اس منگنی کی تقریب میں شرکت کی تھی؟

ہاں!ظاہر ہے۔۔۔‘‘

واو!گڈ یہ کوئی رسم ہے وہاں؟

وہاں؟ پاکستان میں؟ ہاں رسم ہی سمجھ لو۔۔۔

آئی لائیک اٹ۔جب میں شادی کروں گا تو آ پ عرو ہ کو بھی بلائیے گا ۔میں اپنی دلہن کو دکھانا چاہوں گا کہ میری منگنی کی رسم اس کے ساتھ ہوئی تھی۔

جس سے منگنی ہوتی ہے اسی سے شادی ہو تی ہے۔

لیکن منگنی تو چار سال کی عمر میں ہوئی تھی، اب میں چار سال کا نہیں ہوں اب شادی کیسے ہو سکتی ہے؟

جب تم چوبیس سال کے ہو جاو گے یا اٹھائیس کے یا بتیس کے۔۔۔

مجھے تین شادیاں کرنی ہوں گی۔۔۔چوبیس ، اٹھائیس، بتیس۔۔۔

بند کرو یہ مذاق۔۔۔

یہ مذاق میں نے تو شروع نہیں کیا پاپا۔۔۔

عروہ تمہاری منگیتر ہے ، تمہاری شادی اسی سے ہو گی۔بس بات ختم۔۔۔

اوکے۔۔۔بات ختم۔۔۔‘‘

وہ دونوں کمرے سے چلے گئے۔ اسی لیے سال میں دو بار اس کی تصویروں کو البم آتا تھا۔ اور اسی لیے وہ سارے جنگل کی پوئم مجھے سناتی تھی اور ماما مجھے اس کی ہر چھوٹی بڑی بات بتایا کرتی تھیں۔ اسی لیے انکل آکر میری ویڈیو بنا کر لے جاتے تھے اور اسی لیے پاپا مجھے ہر بار اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ اینی وے پاپا خود ہی بات ختم کر چکے ہیں۔ اب کسے پرواہ ہے۔

’’شی از ناٹ مائی فینسی۔‘‘

* * *

وہ پہلی بارپاکستا ن آ یا تھا۔ ۔ اس کا آنا اچانک ہوا تھا۔ دو دن پہلے ممی کو معلوم ہوا تھا کہ وہ اپنے تعلیمی ٹور پر جن ملکوں پر نکلے ہیں ان میں سے ایک پاکستان بھی ہے۔ اس کے ساتھ کچھ دوست بھی ساتھ تھے۔ممی کافی پرجوش تھیں اس کی آمد کا سن کر۔مجھے کافی لمبی چوڑی ہدایات دی گئی تھیں جنہیں میں نے سنا تو تھا لیکن یاد نہیں رکھا تھا۔

اس دن میری فرینڈ رائنہ میرے ساتھ تھی۔ اسے شام تک میرے ساتھ رہنا تھا۔ ہمیں ٹیسٹ کے لیے مل کر سٹڈی کرنی تھی۔پاپا اسے لینے ایئرپورٹ گئے تھے۔ ویسے وہ چار لوگ تھے۔چار لڑکے‘لیکن وہ ایک گاڑی میں پورے نہیں آ رہے تھے۔ا ن میں سے ایک اتنا موٹا تھا کہ وہ کار کی پچھلی سیٹ پر بمشکل ایڈجسٹ ہوا تھا اس لیے ان میں سے دو کو آگے فرنٹ سیٹ پر بیٹھنا پڑا تھا۔

یہ ہے تمہارا کزن؟ جیسے جیسے وہ کار سے نکلتے جا رہے تھے رائنہ پوچھتی جا رہی تھی۔

پتا نہیں!مجھے تو خود سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کون سا والا وہی ہے۔میں نے اس کزن کے اپنے منگیتر ہونے کی بات ابھی تک کسی کو نہیں بتائی تھی۔ بھلا یہ کوئی بات تھی بتانے والی۔

مجھے یہ کچھ کچھ پاکستانی لگ رہا ہے۔‘‘رائنہ نے کار میں سے نکلنے والے آخری لڑکے کو دیکھ کر کہا جو موٹے کے ساتھ پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور کافی پچکا ہوا لگ رہا تھا۔رائنہ منہ پر ہاتھ رکھ کرہنسنے لگی۔کیوں ہنسنے لگی کیونکہ اس کچھ کچھ پاکستانی کے بال پوری پوری پاکستانی لڑکیوں کی طرح کافی لمبے تھے۔ گھنے تھے، سیاہ تھے،اور ہیربینڈ میں قید پیچھے پونی صورت جھول رہے تھے۔وہ ماماز بوائے لگ رہا تھا نا پاپاز ڈیوڈ‘ وہ گرلی فیوز میرا مطلب ’’گرلی کنفیوز‘‘ لگ رہ تھا۔

میں اس کی تصویریں دیکھتی رہی تھی پھر بھی مجھے کچھ وقت لگا اسے پہچانے میں۔ہاں یہ وہی تھی یعنی تھا ۔۔۔ جیک۔۔۔

ایسے لڑکوں کی بہنوں کے بہت مزے ہوتے ہیں۔ ان کے ڈریسنگ ٹیبل سے ان کی بہنیں بھی استفادہ کر سکتی ہیں۔‘‘ رائنہ کھی کھی کرنے لگی۔

تم بھی تو اس کی بہن ہی لگی نا۔ ایسا کرو اسے رہنے کے لے اپنا کمرہ دے دو، کیا یاد کرئے گا بے چارا کیسا پونی ٹیلز اور ہیربینڈ سے بھرا ہوا ڈرسنگ ٹیبل ملا تھا میزبانوں کے گھر‘ ہو سکتا ہے یہ میک اپ بھی کرتا ہو۔تم اپنا میک اپ بھی سجا کر رکھ دینا۔‘‘

اپنی شرمندگی کو چھپاتے ہوئے مجھے نیچے جانا پڑا اس سے ملنے کے لیے۔

’’ہائے عروہ!ایم سرپزائزڈ۔۔۔تم تو کیوٹ نکلی۔۔۔‘‘ ا س نے رائنہ کی طرف مسکرا کر کہا۔

’’میں رائنہ ہوں!‘‘رائنہ ہنسنے لگی جس نے اس کے ہاتھوں میں چوڑیا ں بھی دریافت کر لی تھیں۔

’’میں عروہ ہوں۔‘‘میرا منہ بن گیا اور اس کا بھی۔ بنا رہے میں میری بلا سے۔