تو تمہیں یہ مردہ لگتی ہے۔؟
اس کی ہر تصویر کسی مجسمے کی طرح ہے۔پوری پچاس تصویریں اس درخت کے پاس دیکھ چکا ہوں۔ آخر کیا خاص بات ہے اس درخت میں۔کہاں پایا جاتا ہے یہ درخت؟
وہ لڑکی ہے، تمہاری طرح اچھل کود کر تصویر نہیں بنا سکتی۔یہ دیکھو کتنی کیوٹ لگ رہی ہے۔
اوہ۔۔۔آہ۔۔۔‘‘ میں کتنی دیر تک ماما کو دیکھتا رہا کہ کیا میری ماما کے دماغ کے ساتھ کوئی مسلہ شروع ہو چکا ہے۔
ماما ٹھیک سے دیکھیں آپ نے کسے کیوٹ کہا ہے؟
اسے اور کسے ۔۔۔ماما نے ہاتھ میں پکڑی تصویر کو میرے سامنے لہرایا۔ اس تصویر میں وہ سرخ دوپٹہ اوڑھے اپنی ماما کی بڑی سی جیولری پہنے ہوئے تھی ۔سرخ لپ اسٹک سے اس نے اپنے ہونٹوں کے سائز کو کانوں تک شفٹ کر لیا تھا اور آنکھوں کو قلوپطرہ کی طرح کھینچ کر لمبا کر لیا تھا۔
ماما یہ کیوٹ نہیں بھوت ہے۔‘‘ٹھیک ہے کہ میرا کمرہ ماما پاپا کے گھرمیں ہے لیکن میں اتنا بڑا سچ چھپا نہیں سکا۔
ماما نے ایک زور دار پنچ میری کمر پر شفٹ کیا۔ یہ پنچ میں نے ہی انہیں سیکھایا تھا کہ اگر ان کا سامنا کسی چو ر اچکے سے ہو جائے تو انہیں کیا کرنا چاہیے۔ مجھے نہیں معلوم تھا ماما نے میری دی ٹریننگ اتنی سنجیدگی سے سیکھی ہے اور اس کے بر وقت استعمال سے بھی واقف ہیں۔
اس کیوٹ تصویر کو میں سکول لے گیا اور رائن کو دکھائی۔
یہ لو دیکھو دنیا کے قدیم قبیلوں میں سے ایک قبیلے کے باشندے کا تصویری نمونہ۔نادر نہیں بھی ہے تو ’’ نایاب ‘‘ ضرور ہے۔‘‘
کہاں سے ملی تمہیں یہ؟
پاپا کو ٹریول کا بہت شوق ہے نا۔افریقہ گئے تھے تو لے لی ہو گی کہیں سے۔‘‘
’’تمہارے پاپا کو دیکھ بھال کر ٹریول کرنا چاہیے۔ ایسے علاقوں سے نہیں گزرنا چاہیے جہاں ایسے لوگ رہتے ہوں۔‘‘ اس نے آنکھ مار کر کہا ۔
رائن کی بات میں مجھے پوائنٹ نظر آیا اور میں نے سوچا کہ مجھے پاپا کو بیٹھا کر سنجیدگی سے سمجھانا چاہیے کہ انہیں ایسے علاقوں کا سفر نہیں کرنا چاہیے جہاں ’’ وہ ‘‘ رہتی ہے۔لیکن مجھ سے پہلے ماما پاپا نے مجھے اپنے پاس بیٹھایا لیا۔ یہ ایک خطرناک علامت تھی۔وہ دو موقعوں پر مجھے خاص ایسے اپنے پاس بیٹھاتے ‘جب سکول سے میری کوئی شکایت آئی ہوتی یا انہیں معلوم ہو جاتا کہ میں ان کی کار میں اپنے دوستوں کو ٹھنسا کر اسے دوڑاتار ہا ہوں۔ ساتھ ہی مجھے رائن یاد آیا جو مجھے بتا چکا تھا کہ کچھ دن پہلے اس کے والدین نے بھی اسے ایسے ہی اپنے پاس بیٹھا لیا تھا اور انہوں نے تفصیل سے اس سے پوچھا کہ وہ ڈرگ میں دلچسپی تو نہیں لے رہا ۔پھر وہ باتوں باتوں میں اس سے پوچھنے لگے کہ اسے انسانی خون کو پینے کی پیاس تو محسوس نہیں ہوتی۔اس کے مام ڈیڈ تو وئمپائر سیریز کے دیوانے تھے اس لیے وہ یہ پوچھ سکتے تھے لیکن میرے والدین تو اینمل پلانٹ کے شوقین تھے تو کیا میرا سوال سیکشن جانوروں کے متعلق ہوگا۔
تمہیں ایک بہت ضروری بات بتانی ہے۔ پاپا نے کہا
مجھ میں رینگنے کی صلاحیت نہیں ہے نا ہی میں برفانی طوفان میں پھوسے میں چھپ کر چوہا کھانا چاہتا ہوں۔ آئی ایم نارمل پاپا۔
تم اپنے دوستوں کی سنائی کہانیوں سے باہر آجاو تھوڑی دیر کے لیے۔ پاپا کا وزنی پنچ میری کمر پر لینڈ ہوا۔ میں نے کراہ کر ماما کو دیکھا کہ انہوں نے پاپا کو بھی سیکھا دیا ۔بس یہی نقصان ہوتا ہے گھر والوں کو ٹریننگ دینے کا۔یہ فری ٹیوشن مجھے فوری بند کرنی ہو گی۔
ریلیکس‘‘ ماما نے پاپا سے کہا
میں نے کمر سے فارغ ہو کر گردن گھما کر دونوں کو باری باری دیکھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔
تمہارے چچا کی بیٹی عروہ۔۔۔‘‘کہتے ہوئے پاپا نے اپنا کا ن کھجانا شروع کر دیا‘ لاسٹ ٹائم یہ کان ان کے باس کے مرنے پر کھجایا گیا تھا۔
’’اوہ! شی واس کیوٹ۔‘‘مرنے والوں کو کیوٹ کہہ دینے میں کوئی گناہ نہیں۔اب مجھے سمجھ میں آیا ماما پاپا اتنے سنجیدہ کیوں ہیں۔ وہ ہاتھی گھوڑے کی پوئم سنانے والے گزر گئی ہے۔
واس؟ پاپا ایکدم سے اچھلے۔
آپ مجھے یہی نہیں بتانے والے کہ وہ مر گئی ہے۔۔۔؟
ماما نے فورا اپنا ہاتھ پاپا کے ہاتھ پر رکھا اور پرسکون رہو‘ پرسکون رہو کے انداز میں ہاتھ تھپکنا شروع کر دیا۔
تمہیں یہی کیوں لگا کہ وہ مر گئی ہے۔‘‘مجھے نظر آ رہا تھا کہ اب پہلے سے زیادہ ہیوی ’’ پنچ جیٹ‘‘ میری کمر کے رن وے پر لینڈکرنے ہی والا ہے۔پر کیوں؟میں نے ایسا کیا کہہ دیا آخر؟
آپ مجھے میرے روم سے اٹھا کر لائے ہیں۔ اینمل پلانٹ اس وقت ٹی وی پر بند ہے جسے میں نے اپنی اب تک کی لائف میں کم ہی بند دیکھا ہے۔ مام نے کھانا جلدی بنا لیا ہے جو کہ وہ نہیں بناتیں جب تک آپ پانچ دس بار چلا کریہ نہ کہہ دیں کہ ’’ مجھے بھوک لگی ہے‘خدا کے لیے کھانا لگا دو۔‘‘ اور آپ دونوں میرے دائیں بائیں بیٹھے ہیں اور آپ اپنا کان بھی تو کھجا رہے ہیں۔ آپ کو یہ لگتا ہے کہ شاید وہ میرے پچپن کی دوست ہے اس لیے مجھے اتنے اہتمام سے بتا رہے ہیں۔لیکن میں کلیئر کر دوں کہ ایسا نہیں ہے اس کی آواز اچھی ہو سکتی تھی اگر وہ زیادہ تر چپ رہا کرتی ۔ اس کی تصویریں بھی اچھی ہو سکتی تھیں جن میں وہ کیوٹ لگ سکتی تھی لیکن۔۔۔ اینی وے۔۔۔
پاپا نے ہاتھ بڑھا کر ریموٹ لیا اور اینمل پلانٹ آن کر لیا۔ ’’ دفع ہو جاو میری نظروں کے سامنے سے۔‘‘وہ پوری قوت سے چلائے۔
اوہ! لیکن آخر ایسا کیا ہوا ہے۔؟
’’تم جاو اپنے کمرے میں۔‘‘ ماما نے مجھے میرے کمرے میں بھیج دیا۔ ان دونوں نے مجھ سے بات کرنے کا ارادہ ملتوی کر دیا تھا۔کون سی بات؟ میں نے تھوڑی دیر تک سوچا پھر اس با ت کو ’’ دفع ‘‘ کر کے میں پنچنگ بیگ پر پنچ مارنے لگا۔لیکن کچھ ہی عرصے بعد مجھے یہ پنچ اپنے منہ پر مارنے پڑے۔اس بار ماما پاپا میرے کمرے میں آئے۔ دونوں ایک ساتھ۔ ماما مسکرا رہی تھیں۔ وہ مسکراتے ہوے اچھی لگتی ہیں ‘ظاہر ہے وہ میری ماں ہے اس لیے نہیں بلکہ اس لیے کہ وہ ایسے تب مسکراتی ہیں جب انہوں نے پاپا سے کوئی بھاری رقم نکلوانی ہو۔لیکن میرے پاس ایسا کیا ہے جسے نکلوانے کے لیے وہ ایسے مسکرا رہی ہیں۔ اور پاپا وہ پھر سے بار بار اپنا کان کھجا رہے ہیں۔ اب آخری بار یہ کان تب کھجایا گیا تھا جب برف کا طوفان آیا تھا اور اتفاق سے ہم تینوں روڈ پر کار میں بند پر طوفان کے گزر جانے کا انتظار کر رہے تھے۔
کیا ہو رہا ہے؟پاپا نے پوچھا۔
میں حیرت سے انہیں دیکھنے لگا۔ان کا انداز ایسا تھا جیسے وہ کوئی سیاسی سیلبرٹی ہوں اور کسی ’’ آفت شدگان ‘‘کے ہاسپٹل بیڈ پر جا کر پوچھ رہے ہوں۔’’اور کیا ہو رہا ہے؟ کیسے ہو؟ اوہ ایک ٹانگ کٹ گئی؟اوہ! دوسری بھی کٹنے والی ہے ‘ اینی وے گیٹ ویل سون۔‘‘
’’میں کہہ چکا ہوں میں ڈرگز نہیں لیتا۔مجھے میری کار لے دیں میں آپ کی کا ر یوز نہیں کروں گا۔‘‘