SIZE
2 / 16

ممی ہنسیں۔’’ و ہ بھدک نہیں رہی عروہ وہ گرنے سے بچنے کے لیے۔۔۔‘‘

گرنے سے بچنے کے لیے وہ پھر سے اسی پر گر رہی ہے۔۔۔

یہ تصویریں مجھے دو۔ تم اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔ بھول جاو جیک کو۔

’’یعنی منگنی ٹوٹ گئی۔‘‘مجھے وہ یاد ہی کب تھا جو اسے بھولتی۔

یہ کیا بکواس کر رہی ہو۔؟

آپ نے ہی کہا بھول جاو جیک کو۔۔۔

بھول جاو مطلب اس کے بارے میں نہ سوچا کرو۔

مجھے کیا ضرورت ہے جہنمی لوگوں کے بارے میں سوچنے کی۔‘‘

بات کرنے سے پہلے سوچ لیا کرو۔‘‘ممی نے خاصی طاقت صرف کی مجھے گھورنے میں۔

مجھے یہ تو ٹھیک سے یاد نہیں کہ مجھے کب معلوم ہوا تھا کہ وہ میرا منگیتر ہے۔ہاں لیکن مجھے یہ یاد ہے کہ یہ منگیتر مجھے کب زہر لگنا شروع ہوا تھا ۔تب جب اس نے فون پر میری پوئمز سننی شروع کی تھیں۔اسی وقت سے میں نے اسے سخت ناپسند کرنا شروع کر دیا تھا۔ممی کچھ بھی کہتی رہیں لیکن ایک بات تو صاف ہے کہ ’’وہ میرا منگیترنہیں ہے۔۔۔بس۔۔۔‘‘

* * *

کچھ بھی ہے لیکن انسان چاہ کر بھی اپنا پچپن تفصیل کے ساتھ یاد نہیں کر سکتا۔ خاص طور پر اسے یہ یاد نہیں آسکتا کہ فلاں وقت پر اس کے ساتھ فلاں زیادتی کیوں کی گئی تھی۔ مجھے معلوم بھی نہیں تھا کہ جس چھوٹی سی لڑکی کے مسلسل رونے سے تنگ آکر میں نے کھینچ کر اس کے منہ پر ایک تھپڑ مار دیا تھا بدلے میں وہ پوری کی پوری ہی میرے منہ آ لگے گی۔

ہونہہ۔۔۔پہلے پتا ہوتا تو شاید میں اس کا گلا دبا دیتا۔ ویسے بھی ایک چارسال کے بچے کو دنیا کی کوئی عدالت سزا نہیں دے سکتی۔اپنا سارا پچپن میں اس کی تصویریں دیکھتا رہا کیونکہ مجھے مجبور کیا جاتا تھا کہ میں اسے دیکھوں۔ کبھی کبھی ماما میری اس سے فون پربا ت کروانے کی بھی کوشش کرتیں۔ وہ مجھ سے کہتیں۔

’’ سنوعروہ کتنی کیوٹ پوئم سنارہی ہے۔‘‘

پوئم؟ رئیلی مام۔۔۔؟ میرا منہ خود بخود بگڑ جاتا کیونکہ پوئم تو مجھے کبھی سنائی نہیں دی البتہ پھس پھس کی آوازیں بہت آتی تھیں۔ ماما تو مسلسل ہنس رہی ہوتیں اور میں اپنے نتھنے پھلا رہا ہوتا تھا کہ کیا مصیبت ہے کہ مجھے اس کی پھس پھس سننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اسی پھس پھس کی وجہ سے میرا ناک کافی پھول گیا تھا اور میرے سکول کے لڑکوں نے مجھے عجیب وہ غریب ناموں سے بلانا شروع کر دیاتھا اور وہ تھی کہ باز ہی نہیں آ رہی تھی۔آئے دن اس نے کسی نہ کسی کوئے، ہاتھی، چڑیا، طوطے کی کی پوئم سیکھی ہوتی تھی۔

ماماکیا یہ پورے جنگل کی پوئمزمجھے سنائے گی ؟

سنائے گی تو سن لینا ۔ اتنی پیاری بچی ہے۔‘‘ماما لاڈ سے کہتیں۔

اتنی ہی پیاری بچی ہے تو پھس پھس کیوں کرتی ہے۔؟

شٹ اپ! کتنے بد ذوق ہو تم۔

شٹ اپ ٹو می۔بہت بد ذوق ہو ں میں۔پلیز مجھے دوبارہ فون مت پکڑائیے گا۔‘‘ میں نے ماما سے کہا جو ظاہر ہے ماما نے نہیں سنا اور اگلی بار پھر سے مجھے فون پکڑا دیا۔اس بار وہ ٹرین پر پوئم سنا رہی تھی۔اگلی پوئم یقیناًٹرین کے مسافروں پر آنے والی تھی ، اس سے اگلی ٹرین اسٹیشن پر اور اس سے اگلی ٹرین ڈرئیوار پر اور پھر اور پھر۔۔۔پھر شاید یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہو۔

’’آنٹی کیسی لگی آپ کو میری پوئم۔؟ شایدوہ سمجھی کہ ماما سن رہی ہیں۔

’’بہت بری ، انتہائی بکواس اورتمھارے منہ کی بد بویہاں کینیڈا تک آ رہی ہے۔کون سا پیسٹ یوز کرتی ہو تم۔؟

’’پتا نہیں!ممی برش پر لگا کر دیتی ہیں۔‘‘اس کی رندھی ہوئی آواز آئی۔ اب کیوٹ لگ رہی تھی وہ۔

بر ش پر کیا شو پالش لگاتی ہو۔۔۔ ڈفر۔۔۔

’’نہیں !ٹوتھ پالش۔۔۔‘‘

اس دن میری معلومات میں اضافہ ہوا کہ ٹوتھ پیسٹ کو ٹوتھ پالش بھی کہا جا سکتا ہے۔ آخر یہ بات پہلے مجھے کیوں نہیں سوجھی۔ اس سے سوسائٹی میں تھوڑا چینچ بھی آجا تا اور ڈکشنری کو ایک نیالفظ بھی مل جاتا۔

’’جب تم پالش لگاتی ہو تو کیا دانتوں کو ٹاول سے ڈرائے کرتی ہو؟

نہیں!ممی تو کہتی ہیں دانت خود بخود ڈرائے ہو جاتے ہیں۔

خودبخوڈرائے نہیں ہوتے۔ اچھا تمہاری ماما کے پاس ہیر ڈرائیر ہے؟

ہاں ہے !پلگ لگاؤ بٹن آن کرو‘ ڈرائے کرو۔

ابھی جاو دانت پالش کرو اور پلگ لگاو اور بٹن آن کر دو ۔پورا منہ کھول کر ٹھیک سے ڈرائے کرنا۔ پھر پوئم سنانا مجھے۔

پتا نہیں اس دن اس کے دانت ٹھیک سے ڈرائے ہوئے یا نہیں لیکن پھر دوبارہ ماما نے مجھے فون پکڑا کر یہ نہیں کہا کہ سنو سنو کتنی کیوٹ لگ رہی ہے۔مجھے لڑکیاں صرف ایک ہی بار کیوٹ لگتی ہے’’ جب وہ حلق پھاڑ کر روتی ہیں۔‘‘اور کیوں روتی ہیں کیونکہ ہم لڑکے گھونسے مار کر مارکر ان کا بھرکس نکال دیتے ہیں۔

ہم دو دوستوں نے مل کر ایسے کئی گھونسے ان’’ پاپا ازڈولز‘‘ کو اس وقت تک مارے جب تک مجھے ایک ہفتے کے لیے کمرے میں بند نہیں کر دیا گیا۔میرے مام ڈیڈ کو میرا یہ مشغلہ پسند نہیں آیا تھا۔مجھے اعتراض تھا کہ مجھے ان کی پسند نا پسند کی پرواہ نہیں لیکن ایشو صرف ایک تھا میں ابھی تک انہی کے گھر سے کھاتا تھا ، اور اتفاق سے میرا کمرہ بھی انہی کے گھر میں تھا اور بد قسمتی سے میرے سارے کپڑے ، جوتے ڈیڈ کے پیسو ں سے آتے تھے۔ اگر یہ بد قسمتیاں ہم بچوں کے نصیب میں نہ لکھی ہوں تو ہم ان ’’ پاپا از ڈولز ‘‘کا صفایا کر کے دنیا کو جنت بنا دیں۔

فو ن پر پوئم کے ساتھ ساتھ اس کی تصویریں بھی گاہے بگاہے گھر آتی رہتی تھیں۔ کیسی عجیب بچی تھی‘ جیسے روبورٹ۔ کبھی درخت کے پاس کھڑی ہے، کبھی کرسی پر بیٹھی ہے، کبھی گڑیا ہاتھ میں لیے اپنے بیڈ پر نیم دارز ہے‘ زیادہ ہوا تو سائیکل چلا رہی ہے۔

مامااز شی آلیو؟