میں نے اپنی زندگی میں ہمیشہ اس سنسنی کو مس کیا تھا جس کا شکار ہر وہ لڑکی ہوتی ہے جو اپنے منگیتر کے بارے میں بات کرتی ہے۔
سنسنی مثبت معنی میں نا کہ میری طرح منفی میں کہ جیک کا خیال آتے ہی میرا سر ایسے چکرانے لگتا ہے جیسے بہت ساری چمگادڑیں میرے سر میں گھس کر آپس میں پکڑن پکڑائی کھیل رہی ہوں۔
میں اکثر سوچتی ہوں کہ ایک منگیتر میں آخر ایسا کیا ہوتا ہے کہ اتنے اہتمام سے اس کے بارے میں بات کی جائے جیسے سکول میں کالج میں لڑکیاں کیا کرتی ہیں۔اس کی لک کی،
اس کے کریزما کی، اس کے اسٹائل کی،اس کی مسکراہٹ کی حتی کہ اس کے سنائے جوکس کی بھی ۔جن کی منگنی نہیں ہوئی ہوتی انہیں فکر لاحق رہتی ہے کہ ان کا ’’ وہ ‘‘
کیسے ان کی محبت میں مبتلا ہو گا یا دراصل اسے کیسے ہونا چاہیے۔اس کے لیے وہ باقاعدہ فلموں کے سین زہن میں رکھ کر ان میں سے چھانٹی کرنے لگتی ہیں کہ کون سا ’
’ بیسٹ فالنگ ان لو سین ‘‘ ہے۔انہیں یہ سوچیں بھی گھیرے رکھتی ہیں کہ اس خاص انسان کو انہیں پرپوز کیسے کرنا ہو گا ‘
فون پر باتیں کیسے کرنی ہوں گی‘سالگرہ پر کہاں ڈنر کے لیے لے کر جانا ہو گا اور گفٹ کوکس خاص انداز سے ان کے دربار میں پیش کرنا ہو گا
۔مجھے حیرت ہوتی کہ ایک منگیتر کو لے کر اتنا کچھ کیسے سوچا جا سکتا ہے۔منگیتر کیا کوئی اور ہی مخلوق ہوتا ہے جو آپ کی زندگی کو غباروں، پھولوں، کینڈل لائٹ ڈنر،
اور گفٹس سے بھر دے یا وہ آپ سے ایسی بات کرئے جو کسی نے کبھی کی نہ ہو۔ یعنی ایسی کون سی بات ہے جو کسی نے کبھی کی نہ ہو؟
میں سوچنے پر مجبور ہو جاتی یا آس پاس کی لڑکیاں مجھے سوچنے پر مجبو ر کر دیتیں۔اور پھر اگر کسی دوست سے پوچھ ہی لیتی تو وہ ہنس کر کہہ دیتی۔
’’یو آر اے آ نٹ‘‘ ( تم پاگل ہو)۔‘‘
میری انگلش اچھی ہے لیکن پھر بھی میں نٹ کو اخروٹ کے معنی میں لیتی ہوں۔ پتا نہیں کیوں مجھ نٹ سے اخروٹ ہی یاد آتا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ’’ تم اخروٹ کی طرح ہو ‘‘۔سخت اور تھوڑی سی نمکین‘ زیادہ کھا لینے پر کچھ کچھ کڑوی بھی۔ایسی لڑکی جسے زیادہ کھایا جا سکتا ہے نا روز۔ اور یہ بھی کہ تم اخروٹ کے خول میں بند ہو۔مجھے گھٹن ہونے لگتی ہے کہ کیامیں اخروٹ کے خول میں بند لڑکی ہوں؟ اتنے چنے منے سے اخروٹ کے خول میں بند۔ افف۔۔۔لیکن کیوں؟ کیا صرف اس لیے کہ میں ایک نارمل منگیترانہ لائف نہیں گزار رہی ۔میں یہ معلوم نہیں کر پائی کہ منگیتر کیسے ہو ا جاتا ہے یا منگیتر کو کیسے رکھا جاتا ہے۔ یعنی منگیتر کا یوز کیا ہے؟جہاں تک غباروں ، پھولوں اور ڈنر کی بات ہے تو میں اب تک ان معاملات میں’’تباہ شدہ نہیں بلکہ آفت زدر‘‘ ہوں۔جہاں تک گفٹس دینے اور لینے کی بات ہے تو اس میں دنوں طرف سے دھندلی کی جاتی ہے اور ہر بار کی جاتی ہے۔فون کرنے کی بات تو ایسی ہی ہے جیسے چاند پر جا کر ٹاٹا کرنے کی۔
ہم دونوں کے والدین نے اپنی سی کوشش کی ہے کہ ہم کم سے کم فون پر ہی بات کر لیا کریں لیکن ہم دونوں نے اپنی پوری سی کوشش کی کہ ’’ بھاڑ میں جائے یہ‘‘ مجھے کوئی ضرورت نہیں اس کے منہ لگنے کی۔جو سامنے سے اچھا نہیں لگتا وہ فون پر کیا اچھا لگے گا۔ہم دونوں نے کبھی سیدے منہ ایک دوسرے سے بات نہیں کی پھر بھی ہم ’’ منگیتر ‘‘ کے عہدے پر فائز ہیں۔ہم دونوں نے ایک دوسرے سے جان چھڑانے کا کوئی ایک بھی موقعہ جانے نہیں دیا پھر بھی ہم ’’ منگنی شدگان ‘‘ ہیں۔بلاشبہ یہ کھلا تضاد ہے۔اسی لیے پچپن سے اب تک کے تلخ تجربات سے اٹے منگیترانہ فیز میں میں نے تو یہی جانا ہے کہ منگیتر از اے آ نٹ ۔
اب جبکہ میں کالج کی اسٹوڈنٹ ہوں اور جلد ہی یونیورسٹی جانے والی ہوں تو میں یہ پلان کرنے لگی ہوں کہ میں اپنے بچو ں کی پچپن میں ہرگز منگنی نہیں کروں گی۔بلکہ چند غیر ملکی فلموں نے تو مجھے اتنا باغی کر دیا ہے کہ میں نے سوچنا شروع کر دیا ہے کہ میں اپنے بچوں سے کہوں گی کہ ’’ شادی کا دن طے کر لوتو بتا دینا‘ میں شادی میں شرکت کر لوں گی۔‘‘ یعنی میں اپنی’’ نٹ آزادی‘‘ کا بدلہ اپنے بچوں کو کھلی چھوٹ دے کر لینا چاہتی ہوں۔
میری تاریخ کافی لمبی ہو گئی ہے نا۔جبکہ میری تاریخ میں ہے ہی کیا؟ میں پیدا ہوئی‘ اتفاق سے خوبصورت بھی تھی اور اس سے بڑے بلکہ برے اتفاق سے انہی دنوں میرے کینیڈا والے انکل ہمارے گھر قیام پزید تھے اور ان کا چار سالہ لمبو، یعنی تنبو، اوہ جمبوو، افف۔۔۔ہاں وہی جیک بھی ان کے ساتھ تھا بلکہ آج تک ان کے ساتھ ہی ہے۔ہمت ہے ان کی جو اسے اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے،شاید اسی لیے والدین کا ربتہ اتنا عظیم ہے کہ وہ ایسی ’’ آفات ‘‘ کو بھی جھیل جاتے ہیں۔
ویسے مجھے ابھی بھی یقین نہیں آتا کہ انکل ایسے پینڈو بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر انکل کوایسا ہی دیسی ٹائپ ہونا تھا تو وہ اتنے ماڑرن ملک کینیڈا گئے ہی کیوں؟یہ دیسی لوگ ذرا نہیں بدلتے۔اپنے بیٹے کا نک نیم کسی انگریزی مووی کے ہیرو پر ’’جیک ‘‘ رکھ دیا اور اس انگریزی ہیرو کے لیے پنجاب کی لڑکی ’’ عروہ‘‘ کا ہاتھ مانگ لیا جبکہ ابھی اس بے چاری کو گلا پھاڑ کر رونے سے فرصت نہیں تھی۔دودھ کو پی کر الٹ دیتی تھی اور کوئی نرم غذا اس کے پیٹ میں زیادہ دیر تک ٹھہرتی نہیں تھی۔ ایسی نومولودگی کے ٹریک سے ہٹی ہوئی لڑکی کو انہوں نے اپنی ’’ بہو‘‘ کے طور پر پسند کر لیا۔دفع کرتے پھر کینیڈا کو، یہاں پنجاب میں’’ دیہاتوں ‘‘ کی کمی تھی کیا۔یہی رہتے اور کرتے پچپن کی منگنیاں‘بلکہ نکاح بھی کر دیتے۔ویسے دس سال کی عمر میں میرے ذہن میں یہ پلان پرورش پانے لگا تھا کہ اگر میرا نکاح کرنے کی کوشش کی گئی تو میں پولیس بلا لوں گی۔ مجھے بہت شوق تھا کہ اخباروں میں میری خبر آتی کہ ’’ دس سالہ بچی کا نکاح‘ مولوی اور ساس سسر کو دلہے سمیت حوالات میں بند کر دیا گیا۔‘‘میں سرح گھونگھٹ میں ایک عرصہ اپنی تصویر اخبار میں دیکھتی رہی ۔میں نے پولیس کا نمبر بھی یاد کر لیا تھا لیکن انکل آئے ہی نہیں کینیڈا سے اپنی کینڈی اوہ جیکی میرا مطلب ’’ مسٹر جیک‘‘ کو نکاح کے لیے لے کر۔
آواز کے بعد میری اس سے پہلی ملاقات ویڈیو کے زریعے ہوئی تھی جب میں نے اسے چلتے پھرتے کودتے پھاندتے دیکھا۔پاپا کینیڈا گئے تھے اور کینڈی کی والی بال کھیلتے ہوئے کی ویڈیو بھی بنا کر لائے تھے۔کیا چھوٹی سی نیکر پہنی ہوئی تھی اس نے ۔
’’اتنے چھوٹے کپڑے پہنتے ہیں یہ لوگ۔‘‘میں جتنا بنا سکتی تھی اتنا منہ بنا کر کہا۔
و ہ لڑکا ہے لڑکی نہیں۔۔۔والی بال پلیئرز کا یہی ڑریس ہوتا ہے‘‘ پاپابھی جتنا بنا سکتے تھے اتنا ہی منہ بنا کر کہا۔
میں وہیں چپ ہوگئی‘ میں نے تو بس ایک ذرا سی کوشش کی تھی انہیں اُس کینڈی سے متنفر کرنے کی لیکن وہ مجھ سے ہی متنفر ہو رہے تھے۔بہت لاڈلا تھا وہ پاپا کا۔ممی کا بھی کم لاڈلا نہیں تھا۔ اگلی بار پاپا گئے تو اس کی فل ٹریک سوٹ میں سوئمنگ کرتے ہوئے ویڈیو بنا کر لائے۔
’’ اب ٹھیک ہے۔؟‘‘ پاپا نے مجھ سے پوچھا۔جواب میں اس بار میں نے منہ بنا بھی لیا اور سوجھا بھی لیا۔
پاپا نے میری ویڈیو بھی ساتھ لے جانے کی کوشش کی تھی لیکن میں مانی ہی نہیں۔ جسے ملنا ہے وہ گھر آجائے۔آئے دن میں سنتی رہتی تھی کہ فلاں ملک گھومنے گئے ‘ فلاں ملک فلاں میچ دیکھنے گئے۔ ایک ہمارے ہی ملک نہیں آ رہے تھے وہ۔ ویسے پاپا نے ایک بار انہیں کرکٹ میچ کے لیے بلایا تھا۔و ہ کینڈی آ بھی رہا تھا لیکن پھر اس کا کوئی اسکول کا میچ آگیا اور وہ ہمارے یہاں کا میچ دیکھنے آ نہیں سکا۔
کہاں ہمار ا پاکستان ٹو انڈیا ہوم گراونڈ میچ اور کہاں اس کا اسکول کا والی بال میچ۔ اتنی انسلٹ۔‘‘ میں نے کھانا کھاتے ہوئے کہا۔ پاپا کو بھی غصہ آیا۔
جو لوگ باہر چلے جاتے ہیں ا ن میں محب وطنی ختم ہو جاتی ہے۔‘‘ میں نے غصے کو اور ہوا دینی چاہیے۔
ٹھیک کہہ رہی ہو تم۔۔۔ ‘‘ پاپا نے میری تائید کی اور فون اٹھا کر انکل کو محب وطنی یاد دلائی۔ انکل کو محب وطنی یاد آبھی آگئی اور وہ آنٹی کے ساتھ محب وطنی نبھانے پاکستان آگئے۔میچ دیکھا‘ شہر گھوما‘شاپنگ کی اور چلے گئے۔ آنٹی مجھے تصویریں دے گئی تھیں اس ٹیڈی بئیر کی۔شرم کے مارے میں نے کچھ کو تو فورا جلا ہی دیا۔ یہ کیا طریقہ ہے ریچھ کی کھال پہن کر پوز بنانا‘اور خرگوش بنی لڑکیوں کے پیچھے بھاگنا۔ویسے پتا نہیں ایسی خرگوشنیاں کس جنگل میں پائی جاتی ہیں جو ایسے چھوٹی چھوٹی فراکیں پہنتی ہیں۔میری خالہ کی چار سال کی بیٹی بھی بڑی فراکیں پہنتی ہو گی جو اس کی خرگوشنیوں نے پہنی تھی۔ننھی منی فراکیوں سے سجی خرگوشینیوں کو میں سکول کے لیے گئی‘میرا مطلب ایک تصویر کو اور پھر قریبا پورے دو ہفتے تک ہم توبہ توبہ کرتے رہے تھے۔ میری کلاس میں وہ تصویر خوب گھومی۔ اب جو لڑکیوں نے ان لڑکیوں کی فراکوں پر جہنم کے دروازے کھولے کہ میں بھی دو ہفتے خوف سے سو نہیں پائی۔بعد میں ہم دوستوں نے مل کر مارکل کالرز سے ان بے چاریوں کو پورے کپڑے پہنا ئے۔ انہیں لباس یافتہ کیا۔
اگلی بار جو تصویرں آئیں وہ پہلے سے زیادہ شرمناک تھیں۔ کوئی میچ تھا اس کا۔ جیک کافی شوخا ہو رہا تھا اپنے دوستوں اور سہیلیوں کے ساتھ۔وہ سب ایک دوسرے کو کھینچ رہے تھے‘ ایک دوسرے پر گر رہے تھے‘ چلا رہے تھے‘ اچھل رہے تھے‘ بڑے بڑے منہ کھول کر ہنس رہے تھے‘بلکہ ہنستے ہنستے مر رہے تھے۔ ایک تو عین اس کے سینے پر گرتے ہوئے مر رہی تھی۔
ممی کو دکھایا تو ہنسنے لگیں۔ بیٹا یہ دیکھو وہ گر گیا ہے۔ میچز میں ایسا ہی ہوتا ہے ، وہ میچ جیت گیا ہے تو ۔۔۔
تو جیتنے والے پر لڑکیاں پھدکتی ہیں۔۔۔