کر کے قائم کیا تھا. وہ دیر تک روتی رہی.
جانے کیا ہوا شادی کے تذکرے ٹھنڈے پڑ گئے. اور حیرت کی بات یہ تھی کہ .پارٹیاں بھی کم ہوتی جارہیں تھیں. اب ماما پندرہ دن
میں بیوٹی پارلر ہر ہفتے جایا کرتی تھیں. وہ ابھی سمجھ نہیں پائی تھی کہ پاس بم پھٹا اور اسکی دنیا تہس نہس ہوگئی. وہ لائبریری
سے آرہی تھی. گھر میں گھستے ہوے دوسرے کمرے سے سنا.........
جب پچھلے سال کاروبار میں خسارہ ہوا تھا تب میں نے ایک لاکھ روپے قرض لیا تھا آفریدی سے...... جب اسکے تیس ہزار بھی میرے
ہی پاس ہیں. جب یہ گھر بنوایا تب لئے تھے. میری سمجھ نہیں اتا پچھلے تین سال میں اس نے خلوص کے دریا بہا دے جب پہلی دفع
اس نے مریم کا رشتہ مانگا تھا تب میں نے انکار .کر دیا تھا. آفریدی مجھے سے کوئی دو سال چھوٹا ہوگا. میں اپنی بیٹی پر ظلم نہیں
کر سکتا اب وہ کہتا ہے قرض جلدی ادا کرو ورنہ مریم کا رشتہ دو........بیگم میں اس قدر پریشان ہوں دل کرتا ہے خود کو شوٹ کر
لوں.
ہمّت سے کم لیں ٹھیک ہو جاتے گا سب. ماما کی آواز بھی پریشانی تھی.
کیسے ہو سکتا ہے؟ میرے پاس تو ابھی صرف تیس ہزار ہوں اور دوسری دفع کا نقصان کچھ سمجھ نہیں آرہا.......
ایسا کریں کسی سے قرض لے کر آفریدی کو دے دیں.
سب سے بات کر چکا ہوں کوئی دس ہزار سے زیادہ دینے کو تیار نہیں. ادھر مریم کی شادی کی فکر ہے. چند ماہ پہلے آغا عباس نے اسکا
رشتہ مانگا تھا تب میں نے انکار کر دیا تھا. صفیہ کی وجہ سے کیوں کہ میں اسکو زبان دے چکا ہوں. اب اس سے قرض کی بات کرتے
شرم آتی ہے ورنہ اس سے لے لیتا.
نہیں آپ آغا سے ضرور بات کریں ورنہ دوسری صورت میں.... بیگم میری ایک بیٹی ہے وہ بھی اتنی فرماں بردار. میں اسے دکھ پہنچانے کا سوچ
بھی نہیں سکتا. آفریدی تو بلیک میل کر رہا ہے سوچ رہا ہوں گھر بیچ دوں.
اوہ.... گاڈ کتنی چاہ سے گھر بنایا تھا اور ہماری کتنی توہین ہوگی.
تو پھر تم بتاؤ میں کیا کروں؟ وہ بےبسی سے بولے.
بس آپ فون کر کے کل آغا کو بلائیں. اس سے بات چیت کر کے دیکھتے ہیں.
وہ لرزتے وجود کے ساتھ کمرے میں آگئی اسکو اب پاپا پر ترس آرہا تھا. اور ساتھ غصّہ بھی کے پیسے خرچ کرتے ذرا بھی احتیاط نہیں کرتے.
جو ماما کہتی ہیں ووہی کرتے ہیں ان فضول خرچیوں نے یہ دن دکھاتے ہیں. اب یہ بھی نہیں پتا کے آغا عباس کیا جواب دے.
اوہ...... نو...آغا ہم نے تو آپکو اپنی غرض کے لئے یاد کیا ہے. آیئں ڈرائنگ روم میں بیگم چاۓ کا کہ دیجیے.
ماما کچن کے دروازے سے ہی آرڈر دے کر رخصت ہو گئیں. تب وہ ملازم کو ساری ہدایت دے کر ڈرائنگ کے دروازے کے پاس جاکر کھڑی
ہوگئی.
تو یہ بات ہے وقار صاحب آگاہ کی آواز کمرے میں گونجی.
دراصل آغا میں شراکت دار ہوں اپنی فرم کا ملک نہیں ہوں لیکن اس دفع منافعے کی امید ہے میں جلدی ادا کر دوں گا.