SIZE
2 / 9

اس وقت اس نے ماتھے پر ہزروں بل ڈال کر رازیہ کو گھورا کیوں کہ وہ اسکو گاڑی سے اترتا دیکھ چکی تھی.

ہیلو مس مریم.

آداب وہ فورا دکان سے باہر آگئی

ہوں..... مجھے تو ایسے گھور رہیں تھی شہزادہ کہنے پر ٹانگیں ابھی تک کانپ رہی تھیں. تجھے تو اس نے ہیلو کہا اور تو نے مزے سے

جواب بھی دیا. کیوں جی؟

بھی بیکار باتیں مت کرو، بابا کے جاننے والنے ہیں، تمہیں تو ہر دوسرا شہزادہ یہ ہرکولیس نظر آتا ہے. تھوڑا معیار کم کرو ایسا نہ ہو

خواب ٹوٹ جایئں. اور تمہاری دلی آرزو پوری ہو جاتے. رازیہ نے جل کر بات کاٹی.

دیکھو مجھے یہ بکر باتیں کرنے کا شوق نہیں ہے. اس نے نرم لہجے میں کہا.

اس لئے کہ یہ بیکار باتیں خود جل کر تمہارے گھر جاتی ہیں. وہ بگڑ سی گئی..

پاگل! ہر ایرے غیرے پر نظر نہیں رکھتے. ملی گا ووہی جو مقدار میں ہوگا. وہ کتابیں پچھلی سیٹ پر پھینک کر بولی.

اوکے ...رازیہ ہنس کر بولی.

ایک تو تم سے میں عاجز آگئی ہوں.... آخر اور لڑکیاں بھی تو انجوتے کرتی ہیں. میری بات تو تم اس طرح ٹلتی ہو جسی میں تمہاری

ماں نہیں ملازمہ ہوں. بس اب تمہاری شادی کر دینی چاہیے.

مگر ماما میں تو پڑھ رہی ہوں.

بہت پڑھ لیا..... جمشید تمہارے بابا کو بھی بہت پسند ہے اکلوتا اور دولت مند ہے اور سب سے بڑھ کر وہ خود بھی یہی چاہتا ہے.

ماما پلیز..... پلیز ماما یہ ظلم مت کریں وہ سسک اٹھی.

ظلم.... کیا مطلب تمہارا، وہ گرج اٹھیں.

ماما...... میرا مطلب ہے میں ایسے لوگوں میں ایڈجسٹ نہیں ہو سکتی.

کیوں نہیں ایڈجسٹ ہو سکتیں، ہمارے اسٹینڈرڈ کے یہی لوگ ہیں. اور تمہارا کیا اردہ ہے کسی کلرک کے پلے باندھ دوں. دیکھو مریم

تمہاری عادتیں ناقابل برداشت ہیں خود کو چینج کرو. ورنہ......

آپ میری ماں ہیں... کیا آپ میری شادی زبردستی کر دیں گی. ماما کیا کوئی ماں اپنے بچوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کرتی ہے. جمشید

مجھے پسند نہیں..... آپکے ملنے والی سب امیر زادے مجھے نہ پسند ہیں. اور اپ نے تو میری بات میری پھپھو کے ہاں کی ہوئی ہے.

نان سنس! میں تمہیں اس گریڈ پندرہ کے آفیسر سے بیاہ دوں. تما ہماری بیٹی ہو جو دل کرے گا کریں گے. خبردار جو آئندہ اس بات کا

ذکر کیا. یہ کہ کر وہ باہر چلی گئیں.

وہ سسک پڑی. آج پھوپھو کا سہارا بھی ٹوٹ گیا. اور وہ دس سال پرانا قلبی تعلق بھی جو جو بہن بھائیوں نے اپنے بچوں کے مستقبل کے فصیلہ