اس نے کھڑکی کے سامنے سے پردہ ہٹایا حال میں پارٹی کی تیاریاں ہو رہیں تھیں. چم چم کرتے فرش پر پالش
ہو رہی تھی اور دوسرے ملازم بھر بھر کر پاؤڈر ڈال رہے تھے. جس سے یہ پتا چل رہا تھا کہ آج کی پارٹی اعلی پیمانے
پر ہو رہی ہے اور اس میں ڈانس بھی ہوگا. اس لئے فرش کے نصیب میں یہ دلداریاں لکھی جا رہیں تھیں. اسکو بہت کراہیت ہوئی
اس نے آنکھیں میچ لیں میرے مالک میں کب تک یہ قید و بند کی مشکلات اٹھاؤں.
یہ پارٹیاں جو کبھی کاک تیل پارٹی کبھی برج پارٹی کبھی آیت ہوم کے نام سے موسوم ہوتی تھیں اور کبھی کلب پکنک ہوتی اسکو
ان سب سے بہت نفرت تھی. تو نے مجھے کس جگہ پیدا کر دیا. نماز پڑھنے بیٹھی تو انگریزی بیہودہ گنے اسکے کمرے کی دیوار
سے ٹکرانے لگے. اپنی ذات پر سوچنے بیٹھوں تو یہ مخلوط اور بےہنگم قہقہے میری روں کو گدلہ کرتے ہیں. اسکی آنکھوں سے
آنسو گرنے لگے.
میری ...ہیلو. میری مسز ترمذی ماما کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئیں اس نے تیزی سے آنسو پونچھ ڈالی.
آداب آنٹی.
ہا...... سویٹی مسز ترمذی بولیں تمہاری مم نے شکایات کی کہ تم پکنک پسند نہیں کرتیں، میں تمہیں سزا دینے آئی ہوں اور سزا
یہ ہے کہ ابھی چلو میرے ساتھ . تمہاری ماما کہ رہی ہیں کہ تم بلکل انکی بات نہیں مانتی. نوٹی گرل...... سوری آنٹی مجھے کچھ
نوٹس تیار کرنے ہیں.
اوہ سلی گرل... نوٹس بعد میں بھی تیار کر لینا.ہم تم سے ویسے ہی بہت امپریس ہیں، وہ بولتا تھا میری (مریم) تو شکل سے ہی
گریٹ تھنکر لگتی ہے. کیا کرو گی اتنا پڑھ کر ہمیں نہیں ضرورت. مسز ترمذی نے اسکا گال چوم لیا اور گھسیٹ کر باہر لے گئیں.
اور لان میں وہ ہلڑ بازی تھی کہ اسے گھس آنے لگی.
آغا یہ میری بیٹی ہے مریم...... مریم وقار ماما ایک اجنبی آدمی سے اسکا تعارف کروا رہیں تھیں. گرے سیٹ میں ملبوس آغا عباس اسکو
سر تا پا دلچسپی سے دیکھ رہا تھا.
ہیلو!.... مس مریم وقار کسی ہیں آپ. اتنے سارے لوگوں میں وہ واحد تھا جس نے اسکا نام سلیقے سے لیا تھا.
مگر اسکی آنکھوں کی آوارہ سی لپک نے اسے بھی کبیدہ خاطر کر دیا.
جی آداب!... وہ لمحہ بھر کو کھڑی ہوئی اور لوبی میں چلی گئی.
تھنک یو آغا ماما نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا.
وہ رازیہ کے ساتھ بک سٹال پر کتابیں لے رہی تھی آغا عباس اپنی سیاہ مزدہ سے اترتا نظر آیا.
ارے یہ تو کہیں کا شہزادہ لگتا ہے، رازیہ نے فقرہ کسا.